دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔”ہمارے ہاں خدمت کا صلہ “۔۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔
خدمت خود بولتی ہے اپنا تعارف خود کراتی ہے ۔دیر سے سہی اس خدمت کے تعارف کی ضروت نہیں ہوتی جواخلاص پربنیاد رکھتی ہو ۔۔قومیں ان افرادپر مشتمل ہوتی ہیں جو خاموش خدمت گارہوتے ہیں ان کی محنت اوراس محنت کے پسینے کےبل بولتے پہ قوم بنتی ہے ۔انجینیر اپنی جگہ لیکن مستری مزدور ترکھان مکان بناتے ہیں ۔جنرل اپنی سٹیٹس رکھتاہے مگر سینے میں گولی کھانے والا نوجوان قوم کی آنکھ کااصل تارہ ہے ۔وزیر تعلیم ڈاٸریکٹر اپنی جگہ لیکن گاٶں کا وہ پی ٹی سی استاذ اصل ہیرو ہے جو گرمی سردی بارش یہاں تک کہ اپنے لباس پوشاک کی پرواہ کرنے کی بجاۓ ان نو نہالوں کی تعلیم وتربیت پہ جتا رہتا ہے ۔سیاسی لیڈر کی اپنی پوزیشن ہے مگر وہ مخلص کارکن اس پارٹی کااصل سرمایہ ہے جو اس پارٹی کے لیے اپنی زندگی دیتا ہے ۔جس ملک میں جس قوم میں جس معاشرے میں ان خدمات کو اہمیت دی جاۓ وہ ترقی کرتا ہے مگر افسوس ہمارے ہاں پھتر کا معاشرہ ہے اور جنگل کا قانون ہے ۔۔لاٹھی جس کی ہے بھینس بھی اس کی ہے ۔یہ محروم و مقہور طبقہ جو خدمت گارکہلاتا ہے ہمیشہ نظر اندازرہتا ہے ۔یہی ٹارگٹ ہوتا ہے ۔اسی کی زندگی اجیرن ہوتی ہے ۔یہی مصیبتیں سہتا رہتاہے ۔۔ایک طبقہ جس کو ”اشرافیہ“ کہتے ہیں وہ ان کی خدمات کا مزہ لوٹتا ہے اور ساتھ زندگی کا لطف بھی ۔۔ہمارےآفسر شاہی ہے جوچند مستنڈوں کا گروپ ہے ۔ہمارے ہاں پارلیمنٹ ہے یہ ایک ٹولہ ہے ۔ہمارے ہاں عدالت ہے اس کے اندر ہر کوٸی بادشاہ ہے ہمارے ہاں محافظ اور پاسبان ہیں جن کے لیے دعاٸیں دیناان کچلے ہوۓ طبقے کی مجبوری ہے ۔یہ کچلا ہواطبقہ جن کی فریاد دھاٸی ہے ظالم جیسے سماج سے ٹکراکر واپس آتی ہے۔سالانہ ایوارڈ تقریب میں کسی مزدور کو ،کسی محنتی استاذ کو ،غریبوں کے مونس و غمخوار کسی ڈاکٹر کو،کسی ڈرائیور کو، کسی ترکھان اور ایماندار مستری کو،کسی صادق امین کاروباری کو ۔۔ساٸنس اور ٹیکنالوجی کے میدان کے کسی ہیرو کو کسی لکھاری شاعر ادیب کو انعام نہیں ملتا اگر ملتا بھی ہے تو یہ اس کافراط اصل حقدار نہیں ہوتا ۔۔ ٹک ٹاکر فلمی ہیرو ہیروین گاٸک فلمساز انعام کے مستحق ہوتے ہیں ۔۔کسی خاموش اور گمنام خدمت گار کی خدمت کی کوٸی اہمیت نہیں ہوتی۔۔۔سوال ہے کیا یہ قوم بانجھ ہوگٸی ہے کیا یہ ہیروں سے خالی ہے کیا اس کے گھر آنگن ان جوانوں سے خالی ہوگیا ہے جو بے لوث خدمت کر تے ہیں ۔اگر کوٸی لیڈر بے لوث خدمت کرےگا تو یہ قوم اس کو رد کرے گی ۔اگر استاذ محنتی ہوگا تو اس کا پوچھنے والا کوٸی نہ ہوگا اس کو دوردراز کسی سکول میں سڑنا ہوگا ۔اگر پولیس کاسپاہی صداقت دیکھاۓ گا تو اس کو لاٸن حاضر کیا جاۓ گا ۔اگر فوج کا کوٸی جوان سرفروش ہوگا تو وہ بس بارڈروں پہ جان کھپاۓ گا اگر کوٸی سیکرٹری چاۓ پانی کاطلبگار نہ ہوگا تو اس کواو ایس ڈی بنایا جاۓ گا ۔لیڈرشپ کے لیے کسی اہلیت کی ضرورت محسوس نہیں کی جاۓ گی بس بندے کو پارٹی اکاونٹ میں پیسے جمع کرنے ہونگے ۔یہ وہ بدقسمتی ہے کہ جس کی بنا یہ ملک کاغذ کی کشتی بنتا جارہا ہے اور اس کا سفر سمندروں کا ہے ۔۔۔ قوم قرض لیتی ہے ایک طبقہ عیاشیاں کرتا ہے اس کو خدمت اور تعمیر کی کوٸی فکر نہیں ہوتی دوسرا طبقہ کچلتا جاتا ہے ۔روز یہ ڈرامے ہوتے ہیں مجبور طبقہ کی آواز صدا بہ صحرا ہے اور اس کی خدمت ناخن کی میل ہے ۔ادھر آٸی ایم ایف سے قرضے ہیں ادھر مہنگاٸی کا عذاب ہے ادھر ورلڈ بنک سے قرضے ہیں ادھر غریب ملازمیں کی پنشن اور مراعات پہ شب خون ہے ۔صوبہ بجٹ نہیں بناسکتا لیکن آفسر شاہی کے لیے مفت بجلی پٹرول گھر اور مراعات کی لمبی فہرست ہے ۔ادھر قرضوں کامعاہدہ ہے ادھر قومی نماٸندوں کی سہولیات میں اضافے ہیں ۔انقلاب کا منتظر یہ عوام بس اپنی خیر منارہا ہے اور اس کو ایسا مرحلہ درپیش ہے کہ وہ خدمت سے ڈرتا ہے ۔اپنی کرسی اور عہدے پہ رہ کر اگر من مانیوں سے دور ہے تو وہ لمحے دور نہیں کہ اس کی کرسی اور عہدہ جاتا رہے ۔