دادبیداد..سیاحت اور سڑکیں..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
گرمیوں کاموسم آتےہی سیاحوں کارخ پہاڑی علاقوں کی طرف ہوتا ہے حکومت بھی سیاحت کو فروغ دینے کے اعلا نات کرتی ہے خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات میں ناران کاغان اور سوات کو 1960کی دہائی میں ترقی ملی اورسڑکیں بن گئیں، چترال بھی کالاش ثقافت اور 25ہزار فٹ سے زیادہ بلند پہاڑی چو ٹیوں کی وجہ سے سیاحوں کے لئے پرکشش علاقہ ہے مگر اس کوسڑ کوں سے اب تک محروم رکھا گیا ہے نہ کالاش وادیوں کے لئے پختہ سڑک بنی ہے نہ شندور کے پُرفضا مقام کے لئے پختہ سڑک بنی ہے نہ تریچ میر کے بیس کیمپ کے لئے پختہ سڑک بنی ہے، یہ بات اخبار بین حلقوں کے لئے حیرت اور تعجب کا باعث ہوگی کہ چترال کے دو اضلاع اپراورلوئیر چترال کا مجموعی رقبہ 15ہزار مربع کلو میٹر ہے وادی کی لمبائی ارندو سے بروغیل تک 485کلو میٹر ہے پختہ سڑک کی کل لمبائی 140کلو میٹر ہے، یعنی 200کلو میٹر سڑک بھی دستیاب نہیں اگر ایک سڑک کی بات کی جائے تو چترال شندور روڈ پر1989سے اب تک 35سالوں میں 13بار کام شروع ہو ا جبکہ 12دفعہ کام بند ہوا بو نی بو زوند روڈ افغانستان کی سر حد کو جا نے والا اہم راستہ ہے اس پر 2008میں کام شروع ہواتھا 6بار کام بند ہوا چنانچہ سڑک اب تک نا مکمل ہے، چترال گرم چشمہ روڈ بھی افغان سرحد کو جاتا ہے اس پر 1985میں کا م شروع ہوا 39سالوں کے دوران 10بارکام بندہواسڑک ادھوری رہگئی اور ادھوری ہے، کالاش آبادی کی تین وادیوں کو جانے والی سڑک اول روز سے لاوارث چلی آرہی ہے کسی بھی دور میں اس سڑک کو تعمیر کرنے کی سکیم نہیں آئی خداخدا کرکے 2021ءمیں کالا ش ویلی روڈ کی سکیم آئی تھی 2022ء میں اس پر کام روک دیا گیا دو سال بعد ایک بار پھر کالاش ویلی روڈ پر کام شروع کرنے کا اعلان ہواہے، مگر کسی کو یقین نہیں آرہا کہ کا لا ش ویلی روڈ بنے گی کیونکہ لو گوں نے کام شروع ہونے کے بعد باربار کام بند ہوتے دیکھا اس لئے ہوگا، ہوگی اور اس طرح کے مستقبل کی بات کرنے والے الفاظ کو اب لو گ سنجیدہ نہیں لیتے، چنا نچہ چترال کے دو اضلاع میں ہرسال نئے سیاح آتے ہیں، جو ایک بارآیا وہ کچی سڑکوں پر دوبارہ سفر کرنے سے توبہ کرتا ہے اور اپنی اولاد کو نصیحت کرتا ہے کہ اس طرف کارخ نہ کرو، گاڑی کا بھی اور تمہارااپنا بھی کچومر نکل جا ئیگا، 24سال پہلے سیاحوں کے لئے پرکشش پہاڑی علاقوں میں پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (PTDC) کے پُرآسائش ہوٹل ہوا کر تے تھے، اٹھارویں ترمیم کے بعد ان کو بند کیا گیا اٹھارویں تر میم لانے والوں کاخیال یہ تھا کہ کنکرنٹ لسٹ ختم ہونے سے وفاق پرکام کا بوجھ کم ہو گا صوبے با اختیار ہونگے لیکن مرکز کے پاس سارے سفید ہاتھی اب بھی موجو دہیں صوبوں کو ”خپلہ خاورہ“ میں کوئی اختیار نہیں ملا نظر آنے والا کام یہ ہے کہ پی ٹی ڈی سی ہو ٹل بند ہوگئے اس سال اپریل کے مہینے میں چترال کے کاغلشت فیسٹیول کی مارکیٹنگ ہوئی مئی کے مہینے میں کالاش فیسٹیول چلم جو ش کی ما رکیٹنگ کی گئی، دونوں جگہوں پر جانے کے لئے مناسب سڑکیں نہیں تھیں گاڑیاں بمشکل 12کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی تھیں اب جون کے لئے شندور پولو فیسٹیول کی مارکیٹنگ کی جارہی ہے اپر دیر اور لواری ٹنل سے شندور جانے والی سڑک کی لمبائی 240کلو میٹر ہے اور اس راستے کی حا لت ایسی ہے کہ 6گھنٹے کا سفر 15گھنٹوں میں طے ہو تاہے گردو غبار، مٹی اوردھول اس پرمستزادہے اگرحکومت پہاڑی علا قوں کے صحت افزا مقامات میں سیاحت کو ترقی دینے میں سنجیدہ ہے توچترال کی سڑکوں کے منصوبوں کو مکمل کرنا لازمی ہوگا یہ ایسی سڑکیں ہیں جن کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چار چیف جسٹس صاحبان نے گدھا گاڑی والی پگڈنڈیوں کا نام دیا ہے، تین کور کمانڈر وں اور دوچیف آف آرمی سٹاف نے گاڑیوں کے لئے ناموزوں قراردیا ہے پھر بھی انہی کھنڈرات پر گاڑیاں دوڑائی جا تی ہیں مشکل یہ ہے کہ متبادل راستہ کوئی نہیں سیاحت اور سڑکیں لازم و ملزوم ہیں جہاں پکی سڑکیں نہ ہوں وہاں کے لئے سیاحت کی مارکیٹنگ بہت مشکل ہوگی اس لئے جو ہوا سو ہوا، آنے والے دو چار سالوں میں چترال کی سڑکوں پرکام بند نہیں ہوناچاہئیے اور گذشتہ تین دہائیوں میں باربار کام بند ہونے سے تعمیر شدہ کام پر جو فنڈ ضائع ہوا یا افراط زر کی وجہ سے سکیم کی لاگت میں جو اضافہ ہواان تمام نقصانات کا حساب کتاب ہوناچاہئیے،ترقی یافتہ اقوام کا یہ نعرہ ہوتا ہے پہلے سڑکیں پھر سیا حت۔