دادبیداد..سیاحوں کاپشاور..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
کسی بھی شہر میں داخل ہونے سے پہلے سیاح اس بات کا کھوج لگاتے ہیں کہ اس شہر میں کوئی تاریخی یادگار ہے یا نہیں؟ اس شہر میں کوئی تاریخی ورثہ ہے یا نہیں اگر ہے تو اب تک یونیسکو (UNESCO) نے اس کو عالمی ورثہ قراردیا ہے یا نہیں سیاحوں کے ان سوالات کا مثبت جواب دینے کے لئے صو بائی حکومت نے پشاور کے تاریخی مقام گور کٹھڑی (گور کھتری) کو عالمی ورثہ قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے عنقریب تمام لوازمات پورے کر کے یو نیسکو کے ذریعے گورکٹھڑی کو عالمی ورثہ قرار دلوا کر ورلڈ ہیری ٹیج کی فہرست میں جگہ دی جا ئے گی اس حوالے سے جو خبر اخبارات کے اندر شائع ہوئی ہے وہ بیحد حوصلہ افزا ہے خبر سے معلوم ہوتاہے کہ صو بائی حکومت نے اس سلسلے میں اپنا ہوم ورک مکمل کیا ہے اور یو نیسکو کی گائیڈ لائن کےمطابق پشاور کاکیس تیارکیاگیا ہے یو نیسکو ایک سائنسی، تکنیکی اور فنی تنظیم ہے اس تنظیم کے پاس جو تجویز جاتی ہے اس کی سائنسی تحقیق ہوتی ہے اس کے بنیادی لوازمات کو دیکھا جاتا ہے اور اس تجویز کو تمام پہلووں سے پرکھنے کے بعد اس پرکوئی فیصلہ کیاجاتا ہے اخبارات میں جو خبر شائع ہوئی ہے وہ ایک واقعے کی خبر ہے مشیرسیا حت زاہد چن زیب نے گور کٹھڑی کادورہ کیا، ڈائریکٹر ارکیالوجی ڈاکٹر عبد الصمد خان اور منیجر مارکیٹنگ میڈم حسینہ نے مشیر سیاحت کو بریفنگ دیتے ہوئے منصو بے کی خاص خاص باتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور تاریخی عمارت کی 2ہزار سالہ تاریخ کا جائزہ پیش کیا تیسری صدی عیسوی میں جب پشاور کا تعمیر شدہ علاقہ بہت محدود تھا یہ چوکور قلعہ شہر کے سب سے اونچے ٹیلے پر بنایا گیاتھا اس ٹیلے پر بدھ مت دور کے مشہور راجا کنشکاکی یادگار قائم تھی اس مناسبت سے اس کو ”گور کھتری“ کہا جاتا تھا جو بعد میں بگڑ کر گور کٹھڑی بن گیا اس تاریخی عمارت کی لمبائی اور چوڑائی دونوں 160فٹ ہیں قلعہ نماعمارت ایک چار دیواری کے اندر واقع ہے یہ قلعہ یونانی، سفید ہُن اور سا سانی حملہ آوروں نے تعمیر کیاتھا ان کے بعد کشان خاندان کے قبضے میں رہا، پھر سیتھی، پارتھی، کدارہ، ہند و شاہی، غز نوی، سوری، مُغل، درانی، سکھ اور انگریزوں کی عملداری میں رہا، انگریزوں کی فائر بریگیڈ اورا یمبولینس گاڑیاں اب بھی نوادرات کے طور پر قلعے میں محفوظ ہیں سکھوں کے عہد میں اطالوی جرنیل ابو طبیلہ (Avitable) نے اس قعلے کو اپنا دفتر یا گورنر ہاوس بنایا وہ منتظم بھی بلا کا تھا اور ظالم بھی حد سے زیادہ تھا معمولی جرم پرلوگوں کو پھانسی دیتاتھا، اس عمارت میں مغل دور میں مسجد، اس دور کے مہمان سرائے اور میٹھے پانی کے کنوئیں بھی تعمیر کئے گئے،بر طانوی عہد میں یہاں انتظامی افیسروں اور پٹواریوں کے دفاتر ہوا کرتے تھے اس وجہ سے شہر میں اب بھی اس کو تحصیل گور کٹھڑی کا نام دیا جاتا ہے، پشاور کے شہری اس تاریخی عمارت کو شہر کے اندر گند ھارا تہذیب کی یاد گار کے طور پر اہمیت دیتے ہیں اور کسی بھی قدیمی عمارت سے زیادہ اس کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھتے ہیں مختلف ادوار میں شہریوں نے اس عمارت کی حفاظت،اس کی تزئین و ارائش کے لئے منصو بے منظور کرائے مگر عمارت کو سیاحت کا مرکز بنانے میں کامیابی نہیں ہوئی، گندھارا ہندکو بورڈ اور گندھارا ہندکو اکیڈیمی نے اس پر دستاویزی فلم بھی بنائی ہے علی اویس خیال نے شہر کی فصیل اوردیگر تاریخی عما رات کے ساتھ ساتھ گورکٹھڑی کے قلعے پر بھی تحقیقی کام کیا ہے، محکمہ مال کے اہلکار ہمایون خان نے تحصیل کے نام سے موسوم اس قلعے کا سراپا نہایت جان فشانی سے لکھا ہے، گوپال داس، حا فظ رحمت خان اور دیگر مو رخین نے اس پر قلم اٹھایا ہے ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اور ڈاکٹر سید امجد حسین کی تحریر وں میں بھی اس تاریخی عمارت کا ذکر ملتا ہے، گور کٹھڑی کی تاریخی عمارت کو عالمی ورثہ قرار دینے سے پشاور کو پوری دنیا کے سیاحتی مقامات میں جگہ ملے گی اور یہ موجودہ حکومت کا بڑا کارنامہ ہوگا۔