آواز اقبال

حضرت مولانا قاضی نثار احمد صاحب : سفیرِ امن گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال

تحریر: اقبال عیسیٰ خان

مولانا قاضی نثار احمد کو “سفیرِ امن” کہنا محض ایک خطاب نہیں، بلکہ یہ وہ اعتراف ہے جو ان کی پوری حیاتِ فکر، گفتار، اور کردار پر صادق آتا ہے۔ وہ ایک ایسی جری، مدبر اور بصیرت افروز شخصیت ہیں جنہوں نے گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال جیسے حساس خطوں میں عقائد کے اختلاف کو نفرت کی بجائے احترام کا ذریعہ بنایا، اور برسوں تک اتحادِ امت، بین المسالک ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ رواداری کی شمع روشن رکھی۔

حال ہی میں گلگت کے مرکزی اور حساس علاقے سی پی او چوک کنوداس میں ان پر ایک بزدلانہ قاتلانہ حملہ کیا گیا، جس میں مولانا قاضی نثار احمد اور ان کے محافظ زخمی ہوئے۔

یہ حملہ محض ایک فرد پر نہیں، بلکہ اس فکر پر حملہ تھا جو امن، بھائی چارے اور وحدت کی داعی ہے۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے نے پورے خطے کو سوگوار کر دیا اور ہر ذی شعور شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ سوال اب یہ نہیں رہا کہ حملہ کس پر ہوا، سوال یہ ہے کہ کیوں کیا گیا؟ اور کیوں وہ آواز خاموش کرنے کی کوشش کی گئی جو ہمیشہ نفرت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنی رہی؟

مگر تاریخ کا اصول ہے:

محبت کی آوازیں دبائی جا سکتی ہیں، مٹائی نہیں جا سکتیں۔

زخمی حالت میں مولانا قاضی نثار احمد کا پیغام نہایت پرخلوص، صبر و تحمل کا مظہر، اور سچائی سے لبریز تھا۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ ان کا کسی فرقے، خاص طور پر شیعہ اثنا عشری برادری، سے کوئی اختلاف نہیں, بلکہ وہ ہمارے بھائی ہیں، اور گلگت بلتستان کا امن ہمیشہ ان کی اولین ترجیح رہا ہے۔

انہوں نے مزید فرمایا:

“میں شہادت کے لیے تیار تھا، اور میں نے اس دن اپنے محافظ سے کہہ بھی دیا تھا۔”

یہ الفاظ کسی معمولی انسان کے نہیں، بلکہ ایک صاحبِ عزم، صاحبِ درد، اور صاحبِ نظر قائد کے ہیں, جو امن کے قافلے کا سالار ہے اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کا علمبردار۔

اس حملے کے بعد گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال کے عوام، علمائے کرام، سیاسی و سماجی حلقوں اور نوجوانوں نے بھرپور انداز میں مذمت کی اور مولانا قاضی نثار احمد کے لیے دعاؤں، حمایت اور عقیدت کا اظہار کیا۔

ممتاز شیعہ عالم دین علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے فرمایا:

“یہ حملہ صرف قاضی نثار پر نہیں، بلکہ گلگت بلتستان کے وقار، امن اور وحدت پر حملہ ہے۔”

اسی طرح علامہ شیخ مرزا علی نے کہا:

“قاضی نثار جیسے علماء وہ ستون ہیں جن پر اس خطے کا امن ٹکا ہوا ہے، اور ان پر حملہ دراصل برسوں سے قائم ہم آہنگی کو توڑنے کی ایک مکروہ سازش ہے۔”

ریاستی ادارے بھی متحرک ہوئے، آئی جی گلگت بلتستان نے بتایا کہ حملے میں ملوث آٹھ سہولت کاروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، اور مرکزی ملزمان کی نشاندہی ہو چکی ہے جن کی گرفتاری جلد متوقع ہے۔

عوامی ردِعمل کے طور پر گلگت کی مارکیٹیں دو دن تک بند رہیں، امن ریلیاں نکالی گئیں، اور ایک آواز گونجی:

“سفیرانِ امن کا تحفظ ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے، اور حملہ آوروں کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔”

یہ واقعہ محض ایک سانحہ نہیں، بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم نے آج قاضی نثار جیسے امن کے علمبرداروں کے گرد حصار نہ باندھا، تو نفرت، تعصب اور فرقہ واریت کے اندھیرے ہمارے مستقبل کو نگل سکتے ہیں۔

مگر اگر ہم نے انہیں تنہا نہ چھوڑا، اگر ہم نے ان کی روشنی سے چراغاں کیا، تو نہ صرف ان کا پیغام باقی رہے گا، بلکہ یہ خطہ ایک بار پھر امن، محبت، اور اخوت کا گلشن بنے گا۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مولانا قاضی نثار احمد، سفیرِ امن گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال کو صحتِ کاملہ، عمرِ دراز، اور عزت و سربلندی عطا فرمائے۔

اور ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم ان کی جدوجہد سے سبق لیتے ہوئے اس خطے میں دائمی امن، مذہبی ہم آہنگی اور وحدت کا علم بلند رکھ سکیں۔

زر الذهاب إلى الأعلى
Ads Blocker Image Powered by Code Help Pro

Ads Blocker Detected!!!

We have detected that you are using extensions to block ads. Please support us by disabling these ads blocker.

Powered By
100% Free SEO Tools - Tool Kits PRO