مضامین

طلحہ محمود کا خوف..تحریر: کریم اللہ

چترال میں اگلے ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ آج جماعتِ اسلامی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ضمنی انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کا اعلان کیا گیا۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ممکنہ امیدواروں سے درخواستیں طلب کر لی ہیں، جبکہ کئی افراد خود کو بطور امیدوار پیش کر رہے ہیں۔

اسی دوران یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ سینیٹر طلحہ محمود اپنے فرزند مصطفی محمود کو بطور امیدوار نامزد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جب سے طلحہ محمود نے چترال سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے، تب سے چترال کی سیاست اور عوامی گفتگو کا مرکز وہی بنے ہوئے ہیں۔ اب چترال کی مقامی سیاسی قیادت طلحہ محمود کے مقابلے کے لیے ایک متفقہ امیدوار میدان میں اتارنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر چترال کے سیاست دانوں کو طلحہ محمود سے ایسا کون سا خوف لاحق ہے، جس کی وجہ سے گزشتہ عام انتخابات میں بھی ان ہی کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا اور اب بھی تقریباً تمام جماعتیں ان کے خلاف متحد ہونے جا رہی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ طلحہ محمود نے نہ صرف مالی وسائل کے بل بوتے پر چترال کی سیاست کا نقشہ بدل دیا ہے بلکہ ان کی جارحانہ انتخابی مہم اور عوامی رابطے کی حکمتِ عملی نے بھی مقامی سیاست دانوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔

چترال میں روایت رہی ہے کہ سیاست دان ہر پانچ سال بعد انتخابات کے موسم میں ہی عوام کے پاس ووٹ مانگنے آتے ہیں، اور اس کے بعد عوام سے رابطہ رکھنا وہ اپنے لیے بدشگونی سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس، طلحہ محمود نے انتخابی شکست کے باوجود چترال کے کونے کونے کا دورہ کیا، عوام کے مسائل سنے اور سینیٹ میں ان کے حق میں آواز بلند کی۔

اگر ان کا فرزند مصطفی محمود ان ضمنی انتخابات میں کامیاب ہو جاتا ہے تو دو صورتیں سامنے آ سکتی ہیں:
پہلی یہ کہ وہ یہاں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد مقامی سیاست دانوں کی طرح منظر سے غائب ہو جائیں۔

دوسری یہ کہ وہ اپنے والد کے سیاسی اثر و رسوخ اور تعلقات کو بروئے کار لا کر چترال کے عوامی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اگر ایسا ہوا تو آنے والے انتخابات میں انہیں شکست دینا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔

تاہم، اگر انہوں نے بھی عوام سے منہ موڑ لیا اور ان کے مسائل حل نہ کیے، تو آئندہ انتخابات میں عوام انہیں سخت اور عبرتناک شکست سے دوچار کر سکتی ہے۔

چترال کی مقامی سیاسی قیادت کا خوف دراصل یہی ہے کہ اگر ایک مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست طلحہ محمود یا ان کے خاندان کے پاس چلی گئی، تو وہ اپنے اثر و رسوخ اور عملی کارکردگی کے ذریعے چترال میں اپنی مضبوط جڑیں بنا لیں گے، جس کے بعد مقامی قیادت کے لیے ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ یہی خوف آج چترال کے سیاست دانوں کو بے چین کیے ہوئے ہے، اور اسی وجہ سے وہ طلحہ محمود کے خلاف بھرپور انتخابی مہم کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

زر الذهاب إلى الأعلى
Ads Blocker Image Powered by Code Help Pro

Ads Blocker Detected!!!

We have detected that you are using extensions to block ads. Please support us by disabling these ads blocker.

Powered By
Best Wordpress Adblock Detecting Plugin | CHP Adblock