
خود نوشت سوانح عمری۔۔شاہ حسین گہتوی
مئی 1969ء کی ایک صبح والد محترم مجھے ریاستی ہائی سکول وریجون میں داخلہ کے لیے لے گیا۔ جب رجسٹر داخلہ خارج میں میرے نام کے اندراج کا موقع آیا تو ایک شفیق استاذ جناب سردار حسین شاہ ساکن ہون چترال نے میرے والد سے میرا نام پوچھا۔ والد محترم نے میرا نام بتایا۔ استاذ محترم نے میرے والد سے کہا کہ بچے کا ایک ہم نام شیر حسین نامی پہلے سے کلاس میں داخل ہے۔ اگر میں اس بچے کا نام شاہ حسین رکھوں تو بہتر نہیں ہوگا ؟ والد محترم نے استاد سردار حسین شاہ کی تجویز کردہ نام سے اتفاق کر لیا۔
سکول کا ماحول مجھے بہت اجنبی اور ڈراؤنی لگا کیونکہ اُس وقت اساتذہ کرام سزاؤں کی بارش کیا کرتے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ کسی صورت سکول سے نکل بھاگوں مگر والدین کے ڈر اور چاچاجان انجنئیر حبیب حسین کی حوصلہ افزائی نے میرے سکول چھوڑنے کے تمام راستے مسدود کرا دیئے تھے۔
سکول سے دلچسپی کی ابتداء:
ایک دن سکول کے فزیکل ایجو کیشن ٹیچر نے طلباء وطالبات کو سکول کے صحن میں ترتیب سے بٹھایا۔ اسٹیج سجائی گئی اور ماہانہ بزم ادب کا آغاز ہوا۔ تلاوت کلام پاک کے بعد تقاریر اور ڈرامہ پیش کی گئی۔ بزم ادب کے آخر میں محفل موسیقی کاانعقاد ہوا۔ گاؤں سے ڈف نواز اور ستار نواز بھی آئے ہوئے تھے۔ محفل میں سکول کا پرنسپل جناب فضل الدین صاحب بھی براجمان تھے۔ لڑکے گائے جارہے تھے۔ پرنسپل جناب فضل الدین صاحب بار بار گانے والے لڑکوں سے کہہ رہا تھا کہ میرا پسندیدہ گانا گائیں یعنی
ژانونس ایرا نوشہرا ای وختہ بار چھا اوشوئے
دیوث دنیا بیران ریکومه ژان نو پیتاؤ او شوئے
لیکن گانے والے لڑکے پرنسپل کے ہر فرمائش کے بعد دوسرا کوئی گانا گاتے اور پرنسپل کی فرمائش ادہوری رہ جاتی ۔ گانے والے لڑکوں کا ڈر یہی تھا کہ اگر پرنسپل صاحب کا پسندیدہ گیت گایا گیا تو وہ محفل موسیقی کو برخاست کر دے گا اور لڑکے کسی صورت محفل موسیقی کو اختتام پذیر دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ آخر کار پرنسپل محترم کا پسندیدہ گیت گائی گئی اور اس کے ساتھ ہی محفل بھی برخاست ہوا۔ اب مجھے محسوس ہونے لگا کہ کڑواہٹ اور مٹھاس کی آمیزش ماحول کو دلچسپ بنانے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں یکطرفہ کڑواہٹ اور یکطرفہ مٹھاس متوازن زندگی کی راہ میں خاردار کا نٹے ثابت ہو سکتے ہیں۔
جب اول ادنی میں فیل ہوا:
جب اول ادنی میں مجھے فیل طلباء میں شمار کیاگیا تو میں نے اس ناکامی کو شدت سے محسوس کیا۔ گھر والوں کی ملامت نے مجھے اور بھی حساس بنا دیا۔ اگلے سال میں نے پڑھنا شروع کر دیا اس کے ساتھ ہی فیل ہونے کا ڈر لگا رہا۔ جب سالانہ امتحان ہوا تو میں نے والد صاحب سے سفارش کرنے کی درخواست کی۔ ان دنوں انسپکٹر آف سکولز امتحان لیا کرتا تھا۔ والد نے یقین دہانی کی کہ میں انسپکٹر آف سکولز سے آپ کو پاس کرانے کی سفارش کرلوں گا۔ جس دن والد صاحب سفارش کرنے گیا میں بڑی شدت سے اپنے والد کا انتظار کرنے لگا۔ والد صاحب واپس آئے تو میں نے صورت حال دریافت کی۔ انہوں نے بتایا کہ انسپکٹر صاحب نے آپ کا نام فائل پر نوٹ کیا ہے اور پاس کرنے کی یقین دہانی کی ہے۔ والد صاحب کی یہ باتیں سن کر میں خوشی سے پھولا نہیں سمایا۔ جب نتائج کا اعلان ہوا تو میں پاس قرار دیا گیا۔ اب میں نےاپنی تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا۔ میں نے اپنے ایک کلاس فیلو سے کہا کہ آپ عبارت پڑھتے جائیں اور میں سنتا جاؤں گا اور پھر میں عبارت پڑھوں گا آپ سنتے جائیے ۔ اسی طریقے سے ہم نےخواندگی سیکھ لی۔
باقی آئیندہ
