
کیا تربیت تعلیم سے ذیادہ اہم ہے؟۔۔کاوشات اقبال سے ایک ورق۔۔محمد اقبال شاکر
ایک مثالی مسلمان کی زندگی خدا سے وابستگی،اخلاقیات اور معاشرتی ذمہ داریوں کا مجموعہ ہوتی ہے اس میں عبادات اور سنت رسول محمد صلى الله عليه واله وسلم کی پیروی شامل ہے ساتھ ہی دوسروں کے ساتھ حسن سلوک،تکبر سے دوری اور انصاف پسندی جیسے اوصاف بھی اس کی شخصیت کا حصہ ہوتے ہیں
اللہ تعالی نے انسانوں کو بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے آدم سے لیکر قیامت تک انے والا بندہ آخر تک اللہ کی نعمتوں کا لازوال سلسلہ جاری رہے گا ایسی نعمتیں کہ جن کا استحضار و احاطہ کرنا بھی عقل انسانی کے بس میں نہیں ان میں ایک تعلیم کی دولت ہے جو لازوال ہے جو استعمال سے ذیادہ اور نہ کرنے سے کم یا ختم ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور فلاح و بہبود کی بنیاد ہوتی ہے ایک ترقی یافتہ معاشرہ ہی ترقی کے منازل طے کر سکتا ہے۔
تاہم اگر تعلیم کے ساتھ تربیت کا ماحول دستیاب نہ ہو وہ تعلیم حاصل کرنے کا خواب ادھورا ہے اور انسان تعلیم کا استعمال درست طریقے سے نہیں کر پاتا یہ ہی وجہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے کیونکہ صرف علم حاصل کرنا کافی نہیں بلکہ اس علم کا درست استعمال اور اس کے سہارے سے اچھے اخلاق و کردار کی تشکیل بھی ضروری ہے۔
تعلیم کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ کتابی علم حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ انسانی شعور ،فہم اور دانش حاصل کرنے کا ایک زریعہ ہے دوسری طرف تربیت کا تعلق ،اخلاقیات،آداب اور عملی زندگی میں اچھے اور معیاری رویوں سے ہے اگرچہ تعلیم ایک پھول ہے تو تربیت اس کی خوشبو جو پھول کو پھول کہلوانے کا حقدار ٹہراتی ہے۔۔
اگر کسی فرد کو صرف تعلیم دی جاۓاور اس کی تربیت پر توجہ نہ دی جاۓ تو وہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے اکثر سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ افراد بدعنوانی کرپشن اور بد تمیزی جیسے مسائل میں ملوث ہوتے ہیں اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ انہیں جس ماحول کے دوران تربیت درکار تھی وہ ہو نہیں پاٸی ہے اور یہ اخلاقی تربیت سے محروم رہ چکے ہیں۔
معاشرتی ترقی کیلے دینی اور اخلاقی تعلیم بھی بہت ضروری ہے تعلیم ہمیں انصاف،سچاٸی،ہمدردی،رواداری اور انسان دوستی کا درس دیتی ہے ان کی مثال تربیت کے ساٸے میں پھلنے پھولنے والے ایسے شخصیات کی مثالیں موجود ہیں جو تعلیم و تربیت کے زریعے سے دنیا میں بہت اونچے منصب اور مقام حاصل کر لیتے ہیں اور لے چکے ہیں۔۔
تو ہمیں اس بات کو ضرور یقینی بنانا ہوگا کہ ہم نہ صرف تعلیم حاصل کر لیں بلکہ اپنی تربیت اور اپنے اولاد کی تربیت پر خاص توجہ دیں تاکہ ایک مضبوط اور کامیاب معاشرہ تشکیل دینے میں آسانی ہو معاشرے کی تشکیل میں دو اہم عناصر والدین اور اساتذہ ہیں جن پر ہی بچے کی تعلیم وتربیت کا انحصار ہوتا ہے عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تربیت والدین کی ذمہ داری ہے اور تعلیم کی ذمہ داری استاد۔جبکہ عملی طور پر ایسا نہیں ہے استاد پر اگرچہ تعلیم کی ذمہ داری زیادہ ہے لیکن تربیت کی ذمہ داری سے مبرا نہیں۔۔
بحیثت مسلم ہماری حالت قابل رشک نہیں ہمارا تعلیمی معیار اور نظام تعلیم وتربیت قابل توجہ ہے کیونکہ ہمارے بچے اپنے اردگرد کا ماحول بہت جلد اثر قبول کر لیتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ عمل کی حالت سے گزر رہا ہوتا ہے جو دیکھتا ہے سنتا ہے اس کے تناسب سے وہ اثر قبول کر لیتا ہے لہذا اس عمر میں بچوں کو تربیت کی بہت اہم ضرورت ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں اس میں تربیت کو نظر انداز کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ افراد کو ازسر نو تربیت دینے کی ضرورت پڑتی ہے ۔تربیت افراد کے اخلاق وعادات ،مہارتیں اعمال وکردار اس کی سوچ و افکار اور مجموعی رویے ہوتے ہیں جو فرد کو اخلاقی وجود اور
حیثیت بخشتے ہیں تربیت ایک چمن ہے اگر تعلیم کی بیچ اس میں بوٸی جاۓ تو عقل اور ہوش کے پھل لگتے ہیں جو میٹھے اور سایہ دار ہوتے ہیں جس کی گھنے چھاوں ہر ایک آمن کا پل بھر بھی گزارنا چاہئے گا۔۔
