
پنجاب سے اب لیڈر نہیں نکلے گاایک تلخ حقیقت.. تحریر: نورالہدیٰ یفتالی
یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ پنجاب سے اب لیڈر نہیں نکلے گا کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، مگر اس کے پیچھے ایک گہری تاریخ چھپی ہے، جو کبھی سیاست کے ایوانوں سے اُٹھتی ہے، کبھی اقتدار کے درباروں سے، اور کبھی عوام کے دلوں سے۔ پنجاب، جو برصغیر کی سیاست کا محور رہا ہے، آج قیادت کے فقدان کا شکار کیوں دکھائی دیتا ہے کیا یہ محض سیاسی تھکن ہے، یا پھر وہی سازش کی بو ہے جس کا ذکر تاریخ کے کئی بڑے کرداروں نے کیا حتیٰ کہ خدمتگارِ قوم، خان عبدالغفار خان نے
بھی ایک زمانے میں یہی کہا تھا کہ جہاں سے طاقت نکلتی ہے، وہاں سے خدمت نہیں، سازش کی ہوا چلتی ہے۔
یہ بات محض جذباتی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھیں قیادت ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں طاقت کے مرکز سے ٹکرائی۔ پنجاب چونکہ ریاستی طاقت کا محور بنا، اس لیے یہاں سے اب عوامی قیادت نہیں، بلکہ ادارتی ذہنیت نے جنم لیا۔ یہاں وفاداری کا معیار نظریہ نہیں بلکہ مفاد بن گیا۔ اور جب قیادت مفاد کے خول میں قید ہوجائے تو وہ قوم نہیں، نظام کی غلامی کرتی ہے۔ پنجاب کے اندر بہت سے اہل دل، باصلاحیت اور صاحبِ بصیرت لوگ ہیں، مگر ان کے لیے سیاست کا دروازہ بند ہے، کیونکہ یہاں سیاست اب نظامِ خدمت نہیں بلکہ نظامِ تحفظِ اقتدار بن چکی ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں قیادت دم توڑ دیتی ہے۔ خان عبدالغفار خان جیسے سچے خدمتگاروں نے جو پیش گوئی کی تھی، وہ آج پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ پنجاب سے اب لیڈر نہیں نکلے گا، کیونکہ لیڈر پیدانہیں کیا جاتا، پروان چڑھایاجاتا ہے اور جہاں سازش کی زمین ہو، وہاں قیادت کے پودے نہیں اگتے۔کیونکہ ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال زیادہ تر پنجاب میں کیا جاتا ہے۔ ڈور وہاں سے ہلائی جاتی ہے، اور ناچ کوئی اور کرتا ہے۔ وہ نظریے سے زیادہ شخصیت کو اہمیت دیتے ہیں۔ اگر یہ رویہ اسی طرح جاری رہا تو پھر پختونستان، پنجابستان، بلوچستان اور سندھ ہر کوئی آزادی کی آواز اٹھائے گا
یہ وقت ہے کہ پنجاب کے باشعور لوگ خود سے سوال کریں کیا ہم اقتدار کے لیے جی رہے ہیں یا کردار کے لیےکیونکہ جب قومیں کردار کھو دیتی ہیں، تو ان کے لیڈر تاریخ کے صفحات سے مٹ جاتے ہیں۔ جب کسی قوم میں سچائی، دیانت، انصاف، اور اجتماعی خیر کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے، تو وہ قوم وقتی طور پر طاقت تو حاصل کر لیتی ہے لیکن تاریخ میں عزت نہیں پاتی۔
ایسی قوموں کے رہنما بظاہر بڑے نام رکھتے ہیں مگر وقت کے ساتھ تاریخ انہیں بھلا دیتی ہے کیونکہ وہ قوم یا انسانیت کے لیے کوئی مثبت ورثہ نہیں چھوڑتے۔
