
داد بیداد ۔۔عوامی نفسیات ۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
مشرق اور مغرب میں عوام کی الگ الگ نفسیاتی بیماریاں ہو تی ہیں اگر عوام کا رہنما یا لیڈر مخلص ہو تو عوامی نفسیات کو مثبت رخ دے سکتا ہے،ایسانہ ہو تو رہنمایالیڈر عوام کو خوش کرنے کے لئے سب کی معصومانہ یااحمقانہ خواہشات کاغلام بن جاتا ہے رائے عامد کی درست سمت میں تشکیل نہیں کرسکتا،یو رپ،امریکہ،آسٹریلیا،جاپان اور چین میں عوامی نفسیات اصولوں کے تابع ہوتی ہیں لیڈر بھی اصولوں کی بات کرتاہے رائے عامہ اصولوں پراستوار ہوتی ہے اصول یہ ہے کہ صدر، وزیراعظم، کابینہ کے وزراءکے سامنے سڑکوں، پلوں،پانی کے نلکوں اور گلی محلہ کے بلبوں کی بات نہیں کی جاتی،یہ مقا می کمیٹی اور کونسلوں کےکا م ہیں عالمی سطح پر ملک کا وقار بلند کر نے اور عالمی برادری میں اپنی قوم کاسر اونچا کرنے کے لئے صدر، وزیر اعظم اور کا بینہ کو کام کرنا پڑتا ہے عوام بھی اپنی حکومت سے یہی توقعات رکھتے ہیں، وطن عزیز پا کستان میں رائے عامہ کا چلن اس کے بالکل بر عکس ہے، پا کستانی عوام سٹریٹ لائیٹ کا مطالبہ صدر اور وزیراعظم سے کر تے ہیں یہاں عوام کے ذہنوں پر سپاس نامے کا بھوت سوار رہتا ہے صدر، وزیر اعظم، گور نر یا وزیر اعلیٰ کسی شہر یا گاوں کا دورہ کر ے تو 61یا 73مطالبات کا سپاسنا مہ پیش کر کے سب کو پورا کرنے کی توقع کی جاتی ہے، مقامی لیڈر بھی عوام کو وقتی طور پر خو ش کرنے کے لئے بے تکی باتوں اور غیر منطقی مطالبات کو سپاس نامے کے اندر ڈالتے ہیں باہر سے آیا ہوا لیڈر بھی تالیاں بجوانے اور نعرے لگوانے کے لئے مطالبات ماننے کا جھوٹا اعلان کرتا ہے اخبارات کی فائلوں میں 20سال اور 30سال پرانی خبریں ملتی ہیں ایک قومی سطح کا لیڈر کسی گاوں کے سیاسی دورے پر گیا اور پوچھا اس گاوں کابڑا مسلہ کیا ہے؟لوگوں نے کہااس گاوں میں سکول نہیں ہے، لیڈرنے موبائل فون ملانے کا نا ٹک کیا اور فون پر کسی کو احکامات جاری کئے کہ اس گاوں میں فوراًسکول قائم کرو، فون کرنے کے بعد پوچھا دوسرا کوئی مسئلہ ہو وہ بھی بتاؤ، ایک نوجوان نے اُٹھ کر انہیں بتایا کہ گاوں میں موبائل کا کوئی نیٹ ورک ابھی تک نہیں آیا، کسی کمپنی کاٹاور لگوا دیجئے ایک دوسرے گاوں کی خبر ہے کہ جیل خانہ جات کے وزیر نے گاوں میں بڑا جلسہ کیا، سپاس نامے کے اندر 27مطالبات پیش کئے گئے وزیر نے اعلان کیا کہ سارے مطا لبات بجٹ میں شامل کئے جا ئینگے، فی الحال آپ کی فوری ضرورت پور ی کرنے کے لئے پرائمیری سکول اور ایک یو نیورسٹی بنانے کا حکم دیتا ہوں لوگوں نے بھرپور تالیوں سے ان اعلانات کا خیر مقدم کیا، اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر غیر ملکی سیاحوں نے ہمارا کتنا مذاق اڑایا ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے، اس عوامی نفسیات کی دو اہم وجوہات ہیں، پہلی وجہ یہ ہے کہ قومی سطح کے لیڈروں نے نائب تحصیلدار اور ایس ایچ او سے لیکر بلدیاتی کونسلر تک سب کے اختیارات کو اپنے پا س رکھا ہوا ہے وہ سٹریٹ لائٹ اور پانی کے نلکے پر اپنے نام کی تختی لگانا چاہتے ہیں اس وجہ سے عوام ہرکام کے لئے صدر، وزیراعظم اور گورنر وزیراعلیٰ کی طرف دیکھتے ہیں عوامی نفسیات میں یہ خناس ڈالا گیا ہے کہ اختیارات کا منبع اسلام اباد اور پشاور یا لاہور، کوئٹہ اور کراچی میں ہے اس مغالطے نے رائے عامہ کو غلط راستے پر ڈال دیا ہے عجیب طرفہ تماشا یہ ہے کہ نصف صدی پہلے سیاست میں پختگی اور بلوغت تھی ایم پی اے اور ایم این اے کے پاس لو گ درخواست لیکر نہیں جاتے تھے، محکمہ بلدیات کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر یاچیف افیسر عوام کے مسائل کو حل کرتا تھا نائب تحصیلدار کے دفتر سے بڑے بڑے مسائل حل ہوتے ہیں، ہر محکمے کا افیسر بااختیار ہوتاتھا ملازمین کی تقرری اور تبدیلی محکمے کا سربراہ خود قواعد و ضوابط کے مطابق کیا کرتا تھا اب زما نہ آگے نکل گیا ہے ہم پیچھے چلے گئے ہیں، ہمارے دفترات پر کھنڈرات کا گماں ہوتا ہے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کو ڈاک خانے کی حیثیت دی جاچکی ہے نیچے سے خط آیا اوپر بھیجدی، یا اوپر سے خط آیا نیچے بھیج دی، عوامی نفسیات کو درست سمت دینے کے لئے قانون پرعملدرآمد، قواعد وضوابط کی پابندی اور دفتری امورکو سیاسی مدا خلت سے پاک کرنا وقت کی ضرورت ہے، اراکین اسمبلی کو قانون سازی اور پالیسی امور تک محدود کرکے ترقیاتی منصوبہ بندی اور ملازمین کی تقرری اورترقی کا ساراکام مجاز افیسروں کو دینا تمام مسائل کا واحد حل ہے۔
