مکتوبِ چترال…..صحت کی بے انصافی اور چترال

یہ بات لائق ستائش ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے ڈاکٹر نذیر حسین کو ضلع چترال کے لئے ڈاکٹر ز ونگ کا صدر منتخب کیا ہے۔ڈاکٹر نذیر حسین  اپنے منصب کا فائدہ اُٹھا کر چترال کے عوام کی مشکلات سے تحریک انصاف کی قیادت کو آگاہ کرسکتے ہیں،چیئرمین عمران خان ،وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور وزیر صحت شہرام خان ترکئی کے علم میں ضلع چترال کے عوام کو درپیش صحت کا کوئی مسئلہ نہیں۔کسی بھی مسئلے کا ان کو علم نہیں ۔محکمہ صحت کو اس بات کا علم بھی نہیں کہ چترال کے واحد آئی سپیشلٹ ڈاکٹر محبوب حسین کی ترقی کے بعد 2015میں ان کا تبادلہ ضلع سے باہر ہوا۔پھر انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔عرصہ ہواان کی جگہ کوئی نیا ڈاکٹر نہیں آیا۔آئی وارڈ اور اوٹی بند پڑے ہیں۔محکمہ صحت کے علم میں یہ بات بھی نہیں کہ ڈسٹرکٹ ہیڈاکوارٹر ہسپتال میں کاریاڈیالوجی وارڈ2012ء میں تکمیل کو پہنچا۔2017تک اس کو سٹاف نہیں ملا۔مریضوں کو معمولی ٹیسٹ کے لئے بھی پشاور جانا پڑتا ہے۔محکمہ صحت کے حکام کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ٹراما اینڈ برن یونٹ پر ایک غیر ملکی این جی او کی مدد سے2011میں کام شروع ہوا2014میں عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی دوسال گذرگئے اس یونٹ کو سٹاف نہیں دیا گیا۔عمارت پر کارڈیالوجی یونٹ اور آئی یونٹ کی طرح تالے لگے ہوئے ہیں۔محکمہ صحت کے حکام کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں فضلہ اور گندگی کو ٹھکانے لگانے کے لئے ایک این جی او کی وساطت سے ڈیڑھ کروڑ روپے کا پلانٹ (Incinerator)2013میں لایا گیا ہے۔اس کی تنصیب پر ایک لاکھ روپے اور اس کو چلانے پر ماہانہ دس ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے۔صوبائی حکومت نے چارسالوں میں اس پلانٹ کو چلانے کے لئے دوٹکے نہیں دیے۔صوبائی حکومت کے علم میں یہ بات بھی نہیں کہ پی ٹی آئی کی سینیٹر تہمینہ عابد نے دوسال پہلے ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال کا دورہ کرکے تمام مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کی تھی مگر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔صوبائی حکومت کے علم میں یہ بات بھی نہیں لائی گئی کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال کو2005میں کٹیگری بی ہسپتال کا درجہ دیا گیا تھا مگر اب تک یہاں کٹیگری بھی کی کوئی سہولت دیکھنے میں نہیں آئی ۔ڈاکٹر نذیر حسین شاہ سے اُمید وابستہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عوامی نمائندوں سے لوگ مایوس ہوچکے ہیں۔ضلعی انتظامیہ کا کوئی کردار نہیں ہے کیونکہ تمام معاملات پشاور سے کنٹرول ہوتے ہیں۔یہ صرف عوام کا مسئلہ نہیں ڈاکٹرز برادری کا بھی مسئلہ ہے اور ڈاکٹر نذیر حسین ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال کو دوبارہ فعال ہسپتال بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔