اردو آتی ہے؟

………. شمس الرحمن تاجکؔ

تضحیک ہر صورت ناقابل برداشت ہوتی ہے، لیڈر نبض شناس ہوا کرتے ہیں اگر نہیں ہیں تو رہبری کا حق نہیں دیا جاسکتا مگر کچھ عرصے کے لئے۔ چترالی دنیا کے مہذب ترین لوگ ہیں، تعلیم کا تناسب 80 فیصد سے اوپر ہے حکومتی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے دس گنا زیادہ ہیں ہماری سوسائٹی جہاں ہم رہتے ہیں وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی بچہ سکول سے باہر رہے، یہ سبق ادھار کا نہیں ہے،ہم وہ لوگ ہیں صاحب، جو عزت نفس رکھتے ہیں اور اس عزت نفس کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں،کوئی ہماری عزت نفس مجروح کرے، ہم سے کھیلنے کی کوشش کرے تب بھی ہم مہمانوں کی بے عزتی نہیں کیا کرتے، خاموشی اختیار کرلیتے ہیں وقت کا انتظار کرتے ہیں اپنا بدلہ چکا لیتے ہیں، بقول آپ کے آپ بیس سال سے چترال آرہے ہیں کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ چترال سے آپ کو صرف پندرہ سو ووٹ کیوں ملتے ہیں؟ یہ خاموش انتقام ہے صاحب، ہم اپنی تضحیک بھولنا چاہتے ہیں مگر آپ ہمیں بھولنے نہیں دیتے، ہم بھولنا چاہتے ہیں کہ آپ نے بیس سال پہلے ہمیں اسی پولو گراؤنڈ میں کھڑے ہو کر حساب سیکھانے کی کوشش کی تھی نتیجہ یہ نکلا کہ ہم آپ کو بیس سال سے حساب سیکھا رہے ہیں، آپ کا نام لے کر چترال سے کوئی ان بیس سالوں میں جیت نہیں سکا کیوں؟ آپ ہماری انا مجروح کرچکے تھے، ہماری عزت نفس سے کھیلا تھا، ہمارے لئے سو کروڑ، سو ارب یا پھر تین ہزار کھرب کوئی معنی نہیں رکھتا، عزت نفس صاحب صرف عزت نفس۔
آپ نے اس سال چترال کا تین دفعہ دورہ کیا ہم تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ ہیں ہم آپ کے بارے میں اچھا سوچنے لگے، ہمیں لگا کہ آپ نے جو بیس سال پہلے ہمیں حساب سیکھانے کی غلطی کی تھی اس کا آپ کو احساس ہوگیا ہے اور آپ ہمیں وہ عزت دیں گے جو ہمارا حق ہے ہم نے آپ سے کچھ زیادہ کی ڈیمانڈ بھی نہیں کی تھی،ہم نے ہر اس فعل سے بالاتر ہو کر آپ کا استقبال کیا جو ذاتی یا پارٹی مفادات میں شامل ہو، چترال کی پوری قیادت آپ کو لینے کے لئے ائیرپورٹ پر موجود تھی ان کے لالچ کے بارے میں آپ کو معلوم تھا؟ وہ وہاں صرف اس لئے جمع تھے کہ ہم چترالی اپنے مہمانوں کا اسی طرح استقبال کیا کرتے ہیں، ہم پڑھے لکھے ہیں ہم لوگوں کو معاف کرنا جانتے ہیں، ہم لوگوں کو سدھرنے کا موقع دیتے ہیں اگر کوئی چاہئے، ہمارے مواقع دینے کے باوجود بھی اگر کوئی سدھرنا نہ چاہئے تب بھی ہم کسی کی عزت نفس یوں لوگوں کے سامنے جلسہ گاہ میں مجروح نہیں کرتے کیونکہ ہمیں اپنی عزت نفس بہت پیاری ہے،ہم خاموش انتقام لیتے ہیں صاحب۔
ہم نے بھٹو کو 40 سال ووٹ دیااب بھی دے رہے ہیں آپ کو چترال کے ہر گھر میں اب بھی بھٹو ملے گا، پتہ ہے کیوں؟ وہ ہمیں انسان سمجھتا تھا، کتنے لوگ ، کتنے گھرانے چترال میں ایسے ہیں جہاں سے بھٹو کو کبھی ووٹ نہیں ملا مگر احترام بہت ملا، بھٹو کو لیڈر چترال کے ہر گھر میں مانا جاتا ہے، حالانکہ چترال کی بہترین تعلیم یافتہ نئی نسل کو بھٹو کی لغزشوں کا بھی پوری طرح سے اندازہ ہے مگر ہم ان کے بارے میں نہیں سوچتے، کیوں؟ کیوں کہ وہ چترال والوں کو انسان سمجھتا تھا ہم ان کے زمانے میں کم تعلیم یافتہ تھے مگر انسان ہم اس وقت بھی تھے، اچھا برا اس وقت بھی سمجھتے تھے،ہم نے لواری ٹنل کے لئے کبھی بھٹو کو ووٹ نہیں دیا کیونکہ اتنا شعور ہمیں اس وقت بھی تھاجب بھٹو نے لواری ٹنل پر کام شروع کرنے کے بعد روک دیاہمیں پتہ تھا کہ لواری ٹنل پر کام نہیں ہورہا ہے پھر بھی ہم انہیں چالیس سالوں سے چترال سے جتوارہے ہیں، آج بھی صوبائی اسمبلی کی دونوں سیٹیں بھٹو کے پاس ہیں، آپ کو اس سے اندازہ ہونا چاہئے تھے کہ ہم کیسے لوگ ہیں محسنوں کی کس طرح قدر کرتے ہیں، انسان کی کس طرح قدر کرتے ہیں، بھٹو کے بعد ہمیں کوئی لیڈر ایسا نہیں ملا جس نے ہمیں انسان سمجھا ہو، جس میں آپ بھی شامل تھے، پھر منظر پر مشرف آتا ہے، کہنے کو ڈکٹیٹرہے مگر چترال والوں کے لئے لیڈر، وہ پھر سے ہمیں انسان سمجھنے لگا، دنیا کو بتانے لگا کہ جو انسانیت میں نے چترال میں دیکھی ہے وہ شاید دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں اس نے ہمیں انسان سمجھا ہم اسے مسیحا سمجھنے لگے، اور پورے پاکستان میں پرویز مشرف کے بائیکاٹ کے باوجود ہم نے ان کے نمائندے کو زبردستی جتوادیاچترال میں ان افراد کو ووٹ دیئے جاتے ہیں جو ہمیں انسان سمجھتے ہیں ، یہاں انسانوں کو ووٹ دیئے جاتے ہیں چاہے وہ اپنا ٹکٹ کسی بھینس کے گلے میں ڈالیںیا کھمبے کے گلے میں۔
حیرت کا شکار ہم اس لئے بھی ہوئے ہیں کہ آپ ہمیں کراچی بنانا چاہ رہے ہیں آپ سے گزارش ہے کہ آپ کراچی کو ہی کراچی بنادیں بڑی بات ہے ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں اور اللہ کے کرم سے کر بھی رہے ہیں مگر ہمیں کراچی بننے کا کوئی شوق نہیں ہے ہم انسان ہیں ہم کسی انسان کا ایک ہزار روپے کے لئے قتل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور آپ ہمیں کراچی بنا رہے ہیں جہاں آج کل 400 روپے انسانی جان کی قیمت ہے،سرکار ہم نہ قتل کرسکتے ہیں اور نہ ہی قتل ہونا چاہتے ہیں، چترال میں انسانوں کا شکار نہیں کیا جاتا ہم انسانوں کو عزت دیتے ہیں، آپ ہمیں کراچی بنانے کے بجائے وہاں رینجرز کو اختیارات دے دیں تاکہ وہ کراچی کو ہی کراچی بنادیں۔
آپ ہمیں لاہور بنانا چاہتے ہیں آپ کا بہت شکریہ، ہم سے رائے بھی پوچھ لو کہ ہم ایسا بننا چاہتے بھی ہیں کہ نہیں، جہاں 100 بچوں کو تیزاب کے ڈرموں میں ڈال کر سیسے کی طرح پگھلایا گیا آپ خاموش رہے، جہاں 600 بچوں اور بچیوں کا ریپ صرف پیسہ کمانے کے لئے کیا گیا اور ان کی ویڈیو بنا کر دنیا کو دکھایا گیا کہ ہم ایسے ہیں اور اس میں شامل کون ہیں حاضر سروس صوبائی وزراء! ہم اپنے بچوں کا ریپ نہیں کرسکتے، مر سکتے ہیں یہ کام نہیں ہوسکتا، بقول آپ کے بیس سال سے آپ چترالیوں کو جانتے ہیں اگر ایسا ہی ہے تو کوئی ایک ریپ کیس کسی عدالت میں ہو آپ کو معلوم ہو، کوئی ایک کیس جس سے لگے کہ لاہور اور چترال میں مماثلت ہے، لاہور اور مضافات کے شہروں میں سکولوں کو بھینسوں کے باڑے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے چترال میں سکول علم کے فروغ کے لئے استعمال ہوتے ہیں ہم پڑھیں یا نہ پڑھیں مادر علمی میں بھینس اور بکری کے تصور سے ہی گھن آتی ہے چترالیوں کو! خدارا ہمیں لاہور مت بنائیں بلکہ کوشش کریں کہ لاہور میں چترال اور چترالیوں جیسے اوصاف پیدا ہوجائیں پتہ تو چلے انسانیت کیا ہوتی ہے۔
سب سے حیران کن ہمارے لئے آپ کا چترال کو کوئٹہ بنانا ہے، وہ کوئٹہ جہاں آپ کے کنٹرول کی یہ حالت ہے کہ وہاں انڈین ایجنٹس دھڑلے سے کام کررہے ہیں، ہم پاکستان کی تاریخ کی پہلی ریاست ہیں جو اپنی مرضی سے اور سب سے پہلے پاکستان میں بغیر کسی شرط کے شامل ہوا، پاکستان ہماری رگوں میں خون کے ساتھ دوڑ رہا ہوتا ہے، ماں ہے ہماری ماں، آپ کبھی ہیلی کاپٹر سے نیچے اتر کر دیکھئے آپ کو چترال کے طول و عرض میں شہیدوں کے قبر سینکڑوں کی تعداد میں ملیں گے، ان شہیدوں کی اگلی نسل بھی پاکستان پر قربان ہونے کے لئے تیار ہے، ہم چترالی لوگ ملک پر قربان کرنے کے لئے نسل تیار کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں اور آپ ہمیں کوئٹہ بنانا چاہ رہے ہیں ، ہم چترال کے لوگ مہذب، تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ شاید دنیا میں سب سے زیادہ محب وطن لوگ بھی ہیں ہم مرنا پسند کریں گے مگر نعوذ باللہ ملک سے علیحدگی کی تحریک رکھنے والے علاقوں جیسا بننا پسند نہیں کریں گے، آپ ہمیں کیوں پتھر کے زمانے میں دھکیلنا چاہ رہے ہیں۔
آپ کو شاید غلط گائیڈ کیا گیا ہے چترال کسی کی جاگیر نہیں ہے صاحب! نہ ہی ہم ہاری یا کسی کے مزارعے ہیں، آپ کے مشیر امیر مقام اٹھ کر آپ کو بتا رہا ہے کہ چترال کے لوگ غیور اور تعلیم یافتہ ہیں، چترال کے سپوت ضلعی ناظم آپ کو بتا رہا ہے کہ تعلیم کا تناسب چترال میں 75 فیصد سے زیادہ ہے پھر آپ کو کس حکیم نے بتایا کہ چترالی اردو نہیں سمجھتے، چترال میں جعلی ڈگریاں نہیں ملتیں صاحب! ، آپ کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ آپ ہمیں تاریخ اور اردو سکھانے لگیں؟ ریاضی سکھانے کا انجام آپ اتنے جلدی کیسے بھول گئے، ہم نے آپ کو تخت پر بٹھایا خود فرش پر بیٹھے، آپ کو لگا کہ ہم مزارعے ہیں کسی کے!ہم مہذب ہیں صاحب، آپ دوبارہ آئیں آپ کو دوبارہ تخت پر بٹھائیں گے، ہم خاک نشین لوگ ہیں اور خاک شناس بھی، آپ نے چترال کی ترقی کے لئے 50ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہم آپ کے مشکور ہیں مگر ساتھ میں آپ ہماری تضحیک کرکے ہمیں احسان فراموشی پر اکسا رہے ہیں،پتہ ہے صاحب، مروجہ قانون کے مطابق لوگ الیکشن والے الیکشن ہارتے یا جیتتے ہیں صاحب ، آپ تو الیکشن سے دو سال قبل ہی ہار گئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔