داد بیداد……..سنا ہے بات کرتے تو پھول جھڑتے ہیں

کا لم نگا ر، محقق اور معا لج ڈاکٹر صلا ح الدین میں یہ خو بی تھی کہ وہ بات کرتے تو پھول جھڑتے تھے تیرے منہ میں گھی شکر والی بات اُن کی ہر بات پر صادق آتی تھی مجھے یہ اعزاز حا صل تھا کہ میرا کا لم رو ز نا مہ آج میں اُن کے کا لم کے ساتھ شائع ہو تا تھا کبھی میری کوئی ٹو ٹی پھو ٹی تحریر ان کو پسند آتی تو فون کر کے میرا حو صلہ بڑ ھا تے، کبھی ان کی حکمت و دانش بھری تحریر میری نظر سے گذرتی تو میں فون کر کے اپنی رائے دید یتا یوں تو میرے اور ان کے در میان ”من ترا ملا گویم تو مرا حا جی بگو“ والا سلسلہ چلتا رہتا ڈاکٹر صلا ح الدین بے شمار خو بیوں کے ما لک تھے ہنس مکھ ہو نا ان کی سب سے بڑی خو بی تھی اور یہ ایسی خو بی ہے جو حدیث شریف میں انسان اور مسلمان کی بہت بڑی خو بی بتا ئی گئی ہے جن لو گوں نے 1970کے عشرے سے اب تک پشاور کی ادبی اور علمی سر گر میوں میں شر کت کا شرف حا صل کیا ہے اُن کو یا د ہے کہ پشاور کی ادبی محفلوں میں کبھی محسن احسان اور خا طر غز نوی کا طو طی بو لتا تھا پھر یو ں ہوا کہ نذیر تبسم، نا صر علی سید اور ڈاکٹر صلا ح الدین کا دور آیا ہر ایک کا اپنا منفرد انداز لو گوں کے ذہنوں پر نقش ہے ڈاکٹر صلا ح الدین کے حا فظے میں شا ید اسا تذہ کے کلا م یا ہم عصر شعراء کے اشعار کا اتنا ذخیرہ نہ ہو تا ہم ان کی پو ٹلی میں لطیفوں کے وسیع ذخا ئر تھے شا عروں اور ادیبوں کے لطیفے، ڈاکٹر وں اور طبیبوں کے لطیفے، عا م شہریوں کے لطیفے عرض وہ اپنی پوٹلی کھولتے تو ”خدا دے بندہ لے“ وا لا منظر سامنے ہو تا گندھا را ہند کو بورڈ کی کا نفرنسوں میں لمبی اور طویل نشستیں ہوا کر تی تھیں لیکن ڈاکٹر صلاح الدین اپنی بذلہ سنجی، حا ضر جوابی اور لطیفہ گوئی کے ذریعے سا معین اور مقررین کے ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کو ہرپل ہر لمحہ بحال رکھتے اور اس کا م ایسا ید طو لیٰ رکھتے تھے کہ کسی کو احسا س بھی نہیں ہو نے دیتے تھے سا معین کو پتہ بھی نہیں ہو تا تھا کہ کہ سٹیچ پر چہکنے وا لا یہ خوشنوا بلبل ہماری بوریت دُور کرنے آیا ہے ادب وثقا فت کے ساتھ ڈاکٹر صلا ح الدین کی وابستگی کے تین مضبوط حوالے تھے پہلا حوا لہ ماں بو لی یعنی ہند کو زبان و ادب اور ثقافت کے ساتھ ان کی دلی اور جذ باتی وا بستگی کا حوالہ تھا اس میں ان کا نقطہ نظر بہت وسیع تھا وہ ہند کو کے ساتھ ساتھ ہر شہری اور ہر پا کستا نی کی ماں بو لی کو برابر کا احترام دیتے تھے اور احترام کے لائق سمجھتے تھے یہ ان کی اعلیٰ ظر فی کا ثبوت تھا اس وجہ سے ان کی ذات کبھی ادبی تنا زعات میں ملوث نہیں رہی سب کے لئے احترام اور سب کے ساتھ احترام کا رشتہ استوار رہا اس رشتے کو انہوں نے کبھی گہنا نے نہیں دیا دوسرا حوا لہ ادب و ثقافت پر کام کرنے وا لی سر کا ری اور نیم سر کاری تنظیموں، کمیٹیوں میں ان کا فعال کر دار تھا صو بائی حکومت نے ”ثقا فت کے زندہ امین“ کے عنوان سے ادبی اور ثقا فتی شخصیات کی حو صلہ افزائی کا منصو بہ شروع کیا تو اس منصو بے کی سب سے اہم کمیٹی میں آپ کو شا مل کیا چنا نچہ آپ نے کمیٹی میں بھی اور کمیٹی سے با ہر بھی اپنا فعال کر دار ادا کیا ادب ثقا فت کے ساتھ ان کی وا بستگی کا ایک اور حوالہ ان کا کا لم تھا جس میں وہ چیدہ ادبی مو ضو عات کو زیر بحث لاتے تھے یوں ان کی علمی ادبی و ثقا فتی سر گر میوں نے مل کر ان کے من میں مو جود معا لج اور مسیحا کو ہمیشہ پس منظر میں دھکیل دیا حا لانکہ وہ اپنے طلبہ، طا لبات اور مریضوں میں بھی اتنے ہی مقبول تھے جتنے اپنے سا معین اور قارئین کے لئے وہ پُر بہار و پر کشش تھے فراز نے کیا بات کہی ہے ؎
سنا ہے بات کرے تو پھول جھڑ تے ہیں
یہ بات ہے تو ہم بھی ٹھہر کئے دیکھتے ہیں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔