دادبیداد….سول انتظامیہ کا اعتبار

……ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی…..

کسی بھی حکومت میں سول انتظامیہ ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اور حکومت کو سنبھالتی ہے ۔ امریکہ میں ایک مقولہ مشہور ہے ، کہتے ہیں امریکی صدر چاہے نالائق اور غبی کیوں نہ ہو امریکہ کو فرق نہیں پڑے گا۔ حکومت کا سارا کاروبار سول انتظامیہ کے قابل اعتماد اورمعتبر افسروں کے ہاتھوں میں ہے۔ پوری دنیا کی کامیاب ریاستوں کے بارے میں یہ بہت بڑی حقیقت ہے۔ خیبر پختونخواہ میں آکر یہ بات الٹی ہو گئی ہے۔ یہاں سول انتظامیہ کا اختیار سیاستدانوں کے ہاتھوں میں دیا گیا ہے۔ سیاستدان کا اعتبار عوام کی نظروں میں بُری طرح مجروح ہو چکا ہے۔ اس لئے لوگ حکومت پر اعتماد نہیں کرتے۔ سول انتظامیہ کے مقابلے میں فوج پر اعتماد کرتے ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ ہو فوجی افسر کے وعدے پر مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ سول انتظامیہ کے وعدے کو عوام منہ نہیں لگاتے۔ سیاست دانوں کے وعدے پر عوام اعتبار نہیں کرتے ۔ چترال ، ضلع کے چھبیس اضلاع میں سب سے پر امن ضلع ہے۔ اس ضلع سے 23نومبر کے اخبارات نے ایک خبر شائع کی۔خبر میں بتایا گیا کہ 3بڑی تحصیلوں کا راستہ عوام نے بلاک کردیا۔ عوام ایک بے گناہ اور مظلوم شہری کی گرفتاری اور جھوٹے دفعات میں قید و بند پر احتجاج کر رہے تھے ۔ احتجاج کرنے والوں میں خواتین بھی شامل تھیں۔ سیلاب زدہ گاؤں ریشن کے مقام گرین لشٹ میں 22اگست کو 500گز لمبی سڑک سیلاب میں بہہ گئی، دریا برد ہو گئی۔ پیر سردار حسین شاہ جی کی زمین کو بطور متبادل سڑک استعمال میں لا یا گیا۔ شاہ جی کے ساتھ وعدہ کیا گیا کہ زمین کا معاوضہ ملے گا۔ ایک ماہ گذرا، دو ماہ گذر گئے حکومت نے وعدہ پورانہیں کیا۔ ایم پی اے وعد ے سے مکر گیا۔سی اینڈ ڈبلیو وعدے سے مکر گئی۔ضلع کونسل اور تحصیل کونسل کے ممبر ز وعدے سے مکر گئے ۔ ڈپٹی کمشنر وعدے سے مکر گیا۔ جب 10ہفتے گذر گئے تو شاہ جی نے پھاٹک لگا کر 50روپے فی گاڑی ٹیکس لگایا۔ پولیس حرکت میں آگئی۔ پولیس نے شاہ جی کے خلاف دہشت گردی کے ناقابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا۔ مجسٹریٹ نے شاہ جی کو ضلع بدر کرکے سوات میں اینٹی ٹررسٹ کورٹ لے جانے کا حکم دیا، تو عوام گھروں سے باہر آگئے ۔ 10گھنٹوں تک روڈ بلا ک ہواتو دونوں طرف سے ڈھائی سو گاڑیاں جمع ہو گئیں۔گاڑیوں کی سواریاں بھی احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مل گئیں۔اور لاء اینڈ آرڈر کا بڑا مسئلہ پید اہوا۔ ایم پی اے سے لیکر ضلع کونسل ، تحصیل کونسل کے اراکین اور ضلع ناظم تک کوئی بھی قریب نہ آسکا۔ سی اینڈ ڈبلیو پر لوگوں نے اعتماد نہیں کیا۔ڈپٹی کمشنر پر لوگوں نے اعتماد نہیں کیا۔ ڈی پی او پر کسی نے اعتبار نہیں کیا۔رات 8بجے کرنل ضیاء الدین شاہ نے مظاہرین کو یقین دہانی کرائی کہ زمین کا معاوضہ دیا جائے گا، بے گناہ شہری پیر سردار حسین شاہ جی کو رہا کیا جائے گا، تو مظاہرین کو یقین ہو گیا کہ اب مسئلہ حل ہونے والا ہے۔ کرنل نظام الدین نے لوگوں کو ڈرایا دھمکایا نہیں۔ محض خیر سگالی کا اظہار کیااور شریفانہ وعدہ کیا۔ اس وعدے کو عوام نے سچا وعدہ جانا۔ حکمران جماعت کے نمائندے پر عوام کا اعتبار نہیں تھا۔ سول انتظامیہ کے کسی افیسر کی بات پر عوام کا اعتبار نہیں تھا۔ ایک شریف شہری کی 500گز زرعی زمین حکومت 15فٹ چوڑی سڑک کے لئے 3ماہ تک مفت استعمال کرتی ہے۔ معاوضہ دینے کا وعدہ کرکے پھر مکر جاتی ہے اور شریف شہری کے خلاف پولیس فورس کو استعمال کرتی ہے۔ دہشتگردی کے دفعات کو استعمال کرتی ہے، وہ بھی ایسے علاقے میں جہاں سیلاب کی آفت نے تباہی پھیلائی ہے۔ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ زرعی زمینوں کو نقصان پہنچا ہے۔فصلوں اور باغوں کو نقصان پہنچا ہے۔متاثرین کے ساتھ حکومت اس طرح کا سلوک کرتی ہے۔ تو حکومت پر عوام کا اعتماد کس طرح بحال ہوگا، یقیناًلوگ فوج کی طرف دیکھیں گے۔ مجبوراً لوگ فوج پر اعتماد کریں گے۔زلزلہ کے متاثرین کا بھی یہی حال ہے۔ حکومت پر اور سول انتظامیہ پر ، منتخب نمائندوں پر کسی کا اعتماد نہیں ہے۔ اگر حکومت اپنا اعتماد دوبارہ بحال کرنا چاہتی ہے تو سول انتظامیہ کو اختیارات دیدے۔اگر سی اینڈ ڈبلیو کے ایگزیکٹیو انجینئر اور ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس اختیارات ہوتے تو 22اگست کو معاوضہ کی ادائیگی کے بعد شاہ جی کی زمین لیکر متبادل سڑک بنائی جا سکتی تھی۔ مگراختیارات چیف ایگزیکٹیو کے پاس ہیں اور صوبائی چیف ایگزیکٹیو تک فوج کے سوا ء کسی اور کی رسائی نہیں ہے۔ سول انتظامیہ اور منتخب ممبروں کی تمام رپورٹیں غائب ہو جاتی ہیں۔درخواستیں گم ہو جاتی ہیں۔اس وجہ سے سول انتظامیہ کا اعتبار ختم ہو چکا ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔