تحفظ ختم نبوت اور سفیر امن کا کردار

……………..تحر یر : ضیاء اللہ الجوہری…………..
حضور مبارک اور نبی مہربان ﷺ سے عقیدت اور محبت اور ختم نبوت کا عقیدہ مسلم امت کا وہ تشخص اور سرمایہ افتخار ہے کہ روز اول سے لے کر تا ہنوز جذبہ ایما نی سے سرشار کسی بھی سینہ اور دل نے اس جانب اُٹھتی ہوئی میلی آنکھ کو برداشت نہیں کیا ۔ سینوں میں تیر کھائے ، سر قلم ہوئے ، تختہ دار پہ لٹکے ، لیکن بات جب عزت مآب ﷺ کی عزت اور حرمت کی تھی توسب کچھ خندہ پیشانی سے قبول، لیکن محمد عربی ﷺ سے عشق و محبت اور عقیدہ ختم نبوت پر سودہ بازی کسی قیمت پربرداشت نہیں ۔
چنانچہ بعد از خدائے بزگ تو قصہ مختصر کے بمصداق جہاں خدائے بزگ و برتر کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرانا شریعت اسلا می میں بموجب کفر ہے تو محمد ﷺ کی ختم نبوت پر دست اندازی اور شان رسالت میں گستاخی اور بے حرمتی بھی ناقابل معافی جرم ہے ، اگر کوئی بھی بد نصیب اور بد بخت اس گستاخی کا مرتکب ہو توشریعت اسلامی اور قوانین ملکی کی روشنی میں اسکی ایک ہی سزا ہے کہ اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے ۔
لیکن یہ صرف مذہب اسلام ہی کا تشخص اور حسین امتزاج ہے کہ یہاں تمام حدود اور تعزیرات کے اجراء میں جہاں جرائم کا سد باب مطمح نظر ہے تو دوسری طرف معاشرتی توازن کے بقاء کی خا طر حکمت و دانش سے بھی کا م لیا گیا ۔ اسی بناء پر تمام حدود اور تعزیرات بشمول مدعی نبوت اور گستاخ رسولﷺ کے اوپر حدود اور تعزیرات کے اجراء میں صرف ریاست اور ریاستی متعلقہ ادارے ہی مجاذ ہیں ۔ چنانچہ رسالت مآب ﷺ کے دور سے کر آج تک یہ ثابت نہیں کہ وہاں شرعی حدود اور تعزیرات کے اجراء کا اختیار افراد کی طرف منتقل کیے گئے ہوں ۔دور رسالت میں اگر ایسی کوئی مثال ملتی بھی ہو تو وہاں آنحضرت ﷺ بحیثیت سربراہ ریاست اور بحیثیت قاضی القضاۃ (چیف جسٹس )کے حد ودکے اجراء کا حکم صادر فرماتے تھے ۔جبکہ دنیائے عالم کے دوسرے مذاہب کے ریاستی قوانین میں بھی کہیں پر عوام کو قانون پر اجا رہ داری کے حصول کی مثال نہیں ملتی ۔
گذشتہ جمعۃ المبارک کوشاہی مسجد چترال کے اندر گستاخی نبوت کا جو دلخراش واقعہ رونما ہوا جس نے عشق رسالت سے معمور ہر قلب و جگر کو چور چورکرکے رکھ دیا ہے ، عاشقان رسول ، محبوب دوعالم ﷺ کی شان میں اس بے حرمتی پر دیوانہ وار گستاخ کو نشان عبرت بنانے کے لیے بے تاب ہیں ۔خدا کرے کے بدبخت انسان جلد اپنے انجام کو پہنچے تاکہ مسلمانان چترال اور عاشقان رسول کے دل و جان میں راحت محسوس ہو ۔
اس سارے واقعے کے پس و پیش اور حالات حاظرہ کے تناظر میں لگتا یہی ہے کہ اس واقعہ کی آڑ میں چترال کی پرامن فضاء اور مسلمانان چترال کوبالخصوص اور مملکت خداداد کو بالعموم ایک نئے امتحان میں مبتلا کرنے کے لیے راہیں ہموار کی جارہی تھیں ۔اللہ تعالی سرسبزوشاداب رکھے خطیب استاذ محترم مولانا خلیق الزمان صاحب کو ، آپ اس نازک موڑ پر مسیحا ثابت ہوئے ہزار سلام ہو اس کی بصیرت اور دور اندیشی پر کہ اس نے نہ صرف مسجد محراب کی حرمت اور تقدس کو پا مال ہونے سے بچایا بلکہ عقیدہ ختم نبوت پر حملہ آور گستاخ رسول دہشت گرد کو شریعت اور قانون کے کٹہرے میں لا کھڑ ا کرکے اسلام کی شفافیت اور مسلمانان عالم کی شائستگی کو دنیا پر واضح کیا ۔خطیب صاحب کے اس کردار اور کارنامے پر ہر وہ شخص سپاس و سلام پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتا جنہیں امت مسلمہ پر گزرتی پل پل بدلتی حالات کی نزاکتوں کا احساس ہو ،جو حالات کے نبض پر ہاتھ رکھ کر معاشرتی مسائل سے آ گاہ ہو ۔خطیب صاحب کے اس کارنامے نے لبرلز اور موم بتی ما فیاؤ ں کے منہ پر زبردست طمانچہ رسید کیا ہے جو کہ کسی بھی نا خوشگوار واقعہ کی صورت میں اپنی مو م بتیاں جلائے گھناؤ نے القابات کے ساتھ اسلام اور علماء کی کردار کشی کا شاید شدت سے منتظر تھے ، خد ا نخواستہ اگر مسجد کے اندر کچھ بھی ہو جاتا تو یہی گستاخ رسول نقشہ بدل کر مظلوم مقتول کا روپ دھار لیتا جبکہ عاشقان رسول اور علما ء ظالم ، قاتل اور دہشت گرد جیسے گھناؤنے القابات کے ساتھ سنگلاخوں کے پیچھے ہوتے ۔ اور نام نہاد آزاد میڈیا تصویر کا رخ بدل کر مسجد کی محراب کو دہشت گردی کا محاذ بنا کر پیش کرنے لگ جاتی ۔مولانا صا حب کی ہمت اور دور اندیشی نے حالات کو یکسر قابو میں رکھا انہوں نے امت مسلمہ اور علماء امت کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے دنیا کو پیغام دیا کہ ہم امن کے داعی ہیں قانون کی بالا دستی ہم چاہتے ہیں اور جانتے ہیں ۔ امن و آشتی کا فروغ دنیا اگر چاہتی ہے آئے ہم سکھاتے ہیں ۔ اپنی اس بے مثال کارکردگی پر خطیب صاحب بجا طور پر اس قابل ہیں کہ سفیر امن کا خطاب دے کر امن ایوارڈ سے نوازا جا ئے ۔
عاشقان شمع رسالت بالا دست اداروں سے توقع رکھتے ہیں اور شدت سے منتظر ہیں کہ اول اس گستاخ کو اپنے انجام کے حوالہ کیا جا ئے تاکہ مسلما نوں کے جذبات سے ابھرتے سینے تھم جا ئیں دوسرے مرحلے میں اس پورے منصوبے کو بے نقاب کیا جائے جس کے تحت امن کی وادی چترا ل کو تباہی کے دہانے پر لا نے کے لیے مسجد و محراب اور عقیدہ ختم نبوت کی تقدس کے ساتھ کھیلنے کی ناپاک کوشش کی گئی ان لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ ایسی کسی بھی نا پا ک عزائم کے لیے نشان عبرت بنیں ، چترال کے عوام امن پسند ہیں اور ہیں گے انشا ء اللہ ۔ضرورت اس امر کی ہے معاملے کو طول دے کر عوام کو مزید امتحان میں ڈالنے کے بجائے گستاخ رسول کو شریعت ، قانون اور آئین پاکستان کے مطابق سزائے موت دی جائے۔
یہاں یہ امر نہایت قابل توجہ ہے علماء نے قیام امن میں کردارادا کرکے اپنی ذمہ داری نبھانے کا حق ادا کیا اب اسیران ختم نبوت کا مسئلہ خدا نخواستہ شدت اختیا ر کرتی ہے تو اس کے ذمہ دار ی کا سوالیہ نشان کس کی پیشانی پر تھاپ دی جائے گی ، دانشمندی کا تقاضا یہی ہے انتظامیہ اور عدلیہ اس معاملہ کو سنجیدگی کے ساتھ حل کر یں اور ناموس رسالت کے قیدیوں کی فوری رہائی کو یقینی بنائیں تا کہ حالات کو نئے رخ اختیار کرنے سے بچایا جاسکے ۔بحیثیت مسلمان عقیدہ ختم نبوت کا مسئلہ ہم سب ( عوام ، انتظامیہ ، عدلیہ ، فوج اور پولیس ) کی ایمان کا مسئلہ ہے، لہذا ہر ایک کو اپنے دائرہ اختیار میں کردار ادا کرتے وقت اس بات کا شدت سے احساس رکھنا چاہیے کہ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ بھی ہو اور ہمار ی جنت نظیر وادی چترال کی امن بھی برقرار رہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔