تورکھو کی پہلی قابل فخر قانون دان بیٹی

………. حمید الرحمن حقی ………..

معاشرے میں عورت اور مرد گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں جن میں سے کسی ایک کی بھی احساس زمہ داری اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نظام زندگی کو درہم برہم کر سکتی ہے. بہترین معاشرے کے وجود کیلیے دونوں کی حصول علم سے وابستگی ازحد ضروری اور لازمی ہے.جسکے لیے محنت اور لگن کی بنیادی شرط پر ایک معاشرہ اپنی معاشی معاشرتی اور سماجی اقدار میں نکھار و وقار پیدا کر سکتی ہے.لیکن ایک ایسے معاشرے اور علاقے جہاں تعلیم کے بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور نامناسب حالات کی وجہ بیشتر مرد ہی حصول علم سے محروم رہ جاے وہاں کسی خاتوں کی مشقت و تکالیف، معاشی ومعاشرتی مشکلات اور ناموافق حالات کے باوجود کامیابی سمیٹتے ہوے کسی مقام تک پہنچنا یا اپنی مراد پا لینا نہ صرف قابل فخر امر ہوتا ہے بلکہ اپنے علاقے کیلیے ایک خداداد عطیہ تصور کیا جاتا ہے. سرزمین چترال کو رب کائنات نے جہاں بے شمار قدرتی دولت سے مالا مال کیا ہے وہاں مختلف پرعزم، محنتی، ذہین، جفاکش حوصلہ مند اور قابل فخر ماں بہن بیٹیوں سے بھی نوازا ہے. جو مختلف قسم کے مشکل حالات اور ناموافق معاشی و معاشرتی، موسمی اور سماجی صورت حال کے باوجود ہر میدان میں ملک اور علاقے کا نام روشن کرتے ہوے اعلی مقام پاتے آ رہی ہیں.ان قابل فخر، پرعزم اور حوصلہ مند بیٹیوں میں سے ایک نام رخسانہ سید کا بھی ہے جو چترال کے انتہائی دور افتادہ گاوں کے سخت ترین حالات کیساتھ مردانہ وار مقابلہ کرتی ہوئی چترال کے دیگر خواتین کیلیے ایک مثال بن کر ابھر آئی ہے. جوکہ نہ صرف علاقے بلکہ پورے چترال کیلیے باعث فخر ہے. رخسانہ سید چترال کے علاقے تورکہو کے دور افتادہ گاوں ریچ میں سادات گھرانے کے نامور شخصیت سید حسن ولی شاہ کے گھر پیدا ہوئی.سادات گھرانے کے علم دوست والدیں کی بدولت ابتدائی دینی و عصری تعلیم گھر سے حاصل کرنے کے بعد مزید عصری علوم کے حصول کیلیے بڑے لاڈ پیار کیساتھ آغا خان پرائمری سکول ریچ میں داخلہ کر دی گئی. اس دوران والدیں کی بھرپور توجہ اور اساتذہ کی انتھک محنت اور اپنی شوق وحوصلے اور علمی جذبے سے سرشار رخسانہ سید پرایمری اور پھر مڈل تک کی تعلیم اعلی کارکردگی کیساتھ مکمل کرتے ہی آغا خان ایجوکیشن سروس چترال میں بطور ذہین اور قابل بچی نمایاں ہوئی جسکی وجہ سے مزید میٹرک تک کی تعلیم کیلیے آغا ایجوکشن سروس چترال کی مکمل مالی تعاون اور معاونت کی یقین دہانی پر آغا خان ہائی سکول بوزوند تورکھو میں داخلہ کی گئی.جہاں تورکھو کے عظیم نام اور مشہور و معروف عامل و شخصیت اور اپنی نانا سید خان کے علمی و دوستانہ گھریلو ماحول کی بدولت اور اپنی بے مثال حوصلے اور لگن سے اعلی اور نمایان کارکردگی دکھاتی ہوئی میٹرک تک کی تعلیم پہلی پوزیشنز کیساتھ پاس کر لی.اس دوران والدیں کی اعلی راہنمائی اور اساتذہ کی بے مثال محنت اور اپنی اعلی کارکردگی اور لگن کیوجہ سے رخسانہ سید کی علمی تشنگی روز بروز بڑھتی گئی. بیٹی کی علمی دلچسپی، خواہش اور شوق و ولولے کو دیکھتے ہوے مسائل و مشکلات اور ناگفتہ بہہ صورت حال کے باوجود اس ہونہار بیٹی کو مزید تعلیم و تربیت کیلیے والدیں کی باہمی مشاورت و رضامندی کے بعد پرل ڈگری کالج بونی بھیج دی گئی.اس دوران مذکورہ ہونہار بیٹی نے مزید لگن اور حصول علم کے جذبے کیساتھ نمایان نمبروں سے ایف ایس سی تک کی تعلیم پاس کرتے ہی ڈیسنٹ ڈگری کالج اینڈ سکول چترال میں داخلہ لے لی.اور مختلف مسائل و مشکل حالات کے باوجود اپنی علمی سفر جاری رکھتے ہوئے بی ایس سی تک کی تعلیم نمایان کارکردگی کیساتھ حاصل کرنے کے فورا بعد اسلامیہ یونیورسٹی پشاور میں داخلہ لے لی.اور اپنی لگن و محنت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوے کچھ عرصے بعد بحیثیت اعلی ذہانت و کارکردگی کے حامل ہونہار طالبہ فارع ہوئی.اس طویل علمی سفر کے دوران چترال کی اس بیٹی کو مختلف سماجی،معاشی و معاشرتی مسائل و مشکلات کے علاوہ معاشرے میں عورت پر ڈھائی جانے والے مظالم و تکالیف کو چاروں طرف سے دور و نزدیک دیکھنے کا بھرپور موقع ملا اور ہر مرحلے و موقعے کو بحیثیت صنف نازک اپنے لیے ایک ازمائش و امتحان سمجھتے ہوئے دیکھتی اور یاد کرتی رہی.جسکی خاطر انہوں نے عملی طور پر خواتیں کے حقوق کیلیے لڑنے اور مردوں کے سامنے خواتین کیلیے ڈھال بننے کے واسطے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے اور مستقبل میں خواتیں کے حقوق کیلیے لڑنے کے مصمم ارادے کیساتھ اسلامیہ لآ کالج پشاور میں داخلہ لیکر چند سالوں کے اندر ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کر لی. اور یوں گزشتہ سال پشاور ہائی کےکورٹ لآئر بینچ میں بحیثیت پیشہ ور خاتوں قانون دان شامل ہوئی.اور اپنی قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کیساتھ ملک و قوم کے نادار اور مظلوم ماں، بہن، بیٹیوں کو جائز حقوق دلوانے کی خاطر مختلف قسم کے پیچیدہ کیسسز گزشتہ ایک سال سے بلا معاوضہ لڑتی آ رہی ہے. ہم اپنی اس قابل فخر بیٹی کی مزید کامیابی و کامرانی اور سلامتی کیلیے دعاگو ہیں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔