اپنا اپنا چیف الیکشن کمشنر

……..محمد شریف شکیب…..

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اپنے دلچسپ انداز گفتگو اور سیاسی پیش گوئیوں کی وجہ سے خاصے مقبول ہیں۔جلو شٹل سروس کی افتتاحی تقریب کے بعد میڈیا سے گفت گو میں شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ یہاں ہر سیاسی پارٹی اپنا چیف الیکشن کمشنر لانا چاہتا ہے۔ اپنا الیکشن کمشنر لگانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔یہ غیر آئینی باتیں ہیں ان سے احتراز کرنا چاہئے۔بھارت کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ صاحب کا کہنا تھا کہ نریندر مودی آگ اور خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہے۔ ان اقدامات سے آنے والے دنوں میں پاک بھارت کشیدگی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی احتجاجی تحریک پر طنز کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ مولانا نے خود ہی اعتراف کر لیا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔اور ہاتھ کرنے والے وہی ہیں جن پر مولانا تکیہ کر رہے تھے۔ حالانکہ ان لوگوں نے ماضی میں بھی بار ہار آخری وقت میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ لیکن مولانا پھر بھی انہی پتوں پر تکیہ کرتے ہیں جو ہوادینے لگتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان اور ان کے رفقاء کا کہنا ہے کہ اپوزیشن چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری میں روڑے اٹکارہی ہے جبکہ متحدہ اپوزیشن نے چیف الیکشن کمشنر کے نام پر عدم اتفاق کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی ہے۔ آئینی تقاضا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے تین تین نام تجویز کئے جاتے ہیں۔سپیکر قومی اسمبلی بارہ رکنی کمیٹی تشکیل دیتے ہیں۔ چھ ممبران کا تعلق حزب اقتدار اور چھ کا حزب اختلاف سے ہونا ضروری ہے اور اس کمیٹی میں سینٹ کو ایک تہائی نمائندگی دینا آئینی ضرورت ہے۔ یہ کمیٹی تمام ناموں پر غور کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے چار ممبران کا انتخاب کرکے صدر کو اپنی سفارش پیش کرتی ہے اور کمیٹی کی سفارش پر صدر چیف الیکشن کمشنر اور اراکین الیکشن کمیشن کی منظوری دے کر ان کا اعلامیہ جاری کرتے ہیں۔ آئین میں چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہے تاہم فرائض کی بجا ا ٓوری میں کوتاہی یا کسی بھی وجہ سے صدر مملکت یا سپریم کورٹ آف پاکستان چیف الیکشن کمشنر کو عہدے سے ہٹا سکتے ہیں یا مواخذے کے ذریعے انہیں برطرف کیا جاسکتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی عدم موجودگی میں نئے چیف الیکشن کمشنر کے انتخاب کے لئے ٹائم فریم مقرر ہے۔ مقررہ مدت کے اندر تعیناتی نہ ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن غیر فعال ہوجائے گا۔قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کے انتخاب کے لئے آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اپنا الیکشن کمشنر کسی کا نہیں ہوتا۔ آئینی طریقے سے جس کا چناو کیا جائے وہ پاکستان کا چیف الیکشن کمشنر ہوتا ہے۔ اس کا اعلیٰ عدلیہ کا جج ہونا ضروری ہوتا ہے اور وہ اپنے حلف میں اقرار کرتا ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کسی اثر و رسوخ، دھونس، دباو اور دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لائیں گے خدا کو حاضر و ناظر جان پر اپنے فرائض پوری ایمانداری، دیانت داری اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت ادا کریں گے۔یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں شکست کھانے والی جماعت ہمیشہ دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انتخابی نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں نے تسلیم کیا ہو۔ اور اپنی شکست کی ذمہ داری قبول کی ہو۔دنیا کے دیگر جمہوری ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ انتخابات بھی شفاف ہوتے ہیں نتائج سب کے سامنے آتے ہیں اور شکست کھانے والی جماعت ہار مان لیتی ہے اور جیتنے والی جماعت کو نہ صرف مبارکباد دیتی ہے بلکہ قومی مفاد میں اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کرتی ہے۔2018کے انتخابات کے نتیجے میں
پاکستان تحریک انصاف کو وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کی قومی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ کو قبول کریں اور حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیں۔ اگر انہوں نے عوامی توقعات کے مطابق ڈیلیور نہیں کیا۔ تو اگلے انتخابات میں عوام خود انہیں گھر بھیج دیں گے۔ موجودہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی تقریبا تمام پارٹیوں کو تین تین، چار چار مرتبہ اقتدار ملا ہے۔ عوام نے ان کی کارکردگی بھی دیکھی ہے۔ اب اگر انہوں نے کسی نئی جماعت کو چنا ہے تو اسے آزمانے میں کیا مذائقہ ہے۔ احتجاجی تحریکوں، جلسے جلوسوں، دھرنوں اور ریلیوں سے نقصان عوام کا ہی ہوتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کو عوام کی تکالیف اور مشکلات کا زرا بھی احساس ہے تو انہیں مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی اور لاقانونیت کے مارے بیچارے عوام کے زخموں پر نمک پاش سے گریز کرنی چاہئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔