پولیس فورس کی تطہیر

……..محمد شریف شکیب…….

سپریم کورٹ آف پاکستان نے خواتین کے مقدمات میں خاتون انوسٹی گیشن افسر سے تفتیش یقینی بنانے کا حکم دیاہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے خلع کے بعد ایک خاتون کے اغوا سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم نے 1947 میں آزادی حاصل کرلی تھی لیکن پولیس ابھی تک انگریز کے دور میں رہ رہی ہے، دنیا میں کہیں آئی جی کو آئی جی صاحب نہیں کہا جاتا۔ پولیس اپنی ذہنیت تبدیل کرے اور غلامیت سے نکلے۔ عدالت عظمیٰ نے خاتون کے مقدمہ میں مرد تفتیشی افسر مقرر کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے تفتیش کے لیے مرد افسر مقرر کرنے پر متعلقہ تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔۔عدالت عظمیٰ نے پولیس نظام کی جو نقشہ کشی کی ہے وہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہوبہو تصویر ہے۔ ریاستی ڈھانچے میں پولیس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ قانون نافذ کرنے والا بنیادی ادارہ ہے۔ قانون ساز ادارے خواہ کتنا ہی جامع اور موثر قانون بنائیں جب تک معاشرے میں اس کا نفاذ نہ ہو۔ وہ قانون بے فائدہ اور مہمل ہے۔ ہمارے ہاں پولیس کے ادارے کو حکمرانوں، بیوروکریسی اور بااثر افراد نے ہمیشہ اپنے گھر کی لونڈی بناکے رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی افادیت تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ کسی بھی صوبے کی پولیس فورس کی نصف تعداد صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء، سینیٹروں، اراکین اسمبلی، اعلیٰ افسران اور سیاست دانوں کے پروٹوکول اور حفاظت کی ذمہ داریاں نبھانے پر مامور ہے۔ قانون کے نفاذ، جرائم کی روک تھام، ٹریفک کو رواں دواں رکھنے اور معمول کی پولیسیانہ ذمہ داریاں نبھانے کے لئے مطلوبہ تعداد میں نفری دستیاب نہیں ہوتی جس کی وجہ سے قانون شکنی اور جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ دوران سروس بدلتے حالات کے مطابق پولیس کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔دنیا میں تفتیش کا نظام سائنسی خطوط پر استوار ہوا ہے۔ ہمارے ہاں تھانوں میں بدترین تشدد کے ذریعے ملزموں سے اقرار جرم کرانے کی صدیوں پرانی روایت برقرار ہے۔ پولیس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی بھی شہری کو مشتبہ قرار دے کر گرفتار کرے۔ اور پھر وحشیانہ تشدد کے ذریعے اس سے شہر بھر میں ہونے والے جرائم کا اعتراف کرائے۔اکثر و بیشتر چھاپوں، آپریشن اور کریک ڈاون کی آڑ میں چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔پولیس کا تفتیشی نظام اتنا کمزور، سطحی اور غیر فطری ہے کہ جرائم پیشہ عناصر اس کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اگر پولیس کسی پیشہ ور مجرم کو پکڑ بھی لے تو عدالت میں اس کے خلاف ٹھوس شواہد پیش کرنے سے قاصر رہتی ہے عدالتیں چونکہ ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں محض شبے کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر میں قانون کا خوف باقی نہیں رہا۔خود پولیس فورس میں بھی ایسی کالی بھیٹریں موجود ہیں جن کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔کچھ ڈاکو، رہزن، چوراور سمگلر پولیس کے پے رول پر ہوتے ہیں انہیں کھلی چھٹی دی گئی ہے کہ خود بھی کھائیں اور پولیس والوں کوبھی کھلائیں۔ساری پولیس فورس کوقانون شکن، رشوت خور اور بددیانت قرار نہیں دیا جاسکتا۔کچھ پولیس اہلکار ایسے بھی ہیں جن کی ایمانداری، دیانت داری اور فرض شناسی کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن فورس میں ان دیانت دار افسروں اور اہلکاروں کو نااہل اور نکما
سمجھا جاتا ہے۔ پولیس فورس میں یہ بات مشہور ہے کہ جس تھانے کی حدود میں 302کا واقعہ رونما ہوجائے اور متعلقہ تھانے کا ایس ایچ او فریقین سے وصولیاں کرکے اپنے لئے نئے ماڈل کی گاڑی نہ خرید سکے، اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی اس کیس سے ہونے والی آمدن سے نہ کراسکے وہ نالائق اور بیکار اور فورس پر خواہ مخواہ بوجھ ہے۔خیبر پختونخوا پولیس کو موجودہ حکومت مثالی اور رول ماڈل قراردیتی نہیں تھکتی۔ لیکن تھانوں میں آج بھی شہریوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ عام شہری کو پولیس سٹیشن سے ریلیف آج بھی نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ چوری، ڈکیتی، رہزنی اور قتل کے واقعات کی بھی تھانے میں رپورٹ کرانے کو وقت اور وسائل کا ضیاع سمجھتے ہیں۔پولیس فورس میں بنیادی خرابی کی ذمہ دار پولیس نہیں۔ بلکہ قانون بنانے والے ہیں جو کبھی نہیں چاہتے کہ پولیس ان کے ساتھ گارڈ کی ڈیوٹی دینے کے بجائے عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔حکومت اگر نظام میں واقعی اصلاحات کرنا چاہتی ہے تو پولیس کے نظام کی تطہیر کرے اور اسے عوامی فورس بنائے۔جس دن پولیس عوامی فورس بن جائے اس دن جرائم کی شرح صفر اور قانون شکن عناصر کا قلع قمع ہوگا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔