ٹیکس دھندگان کی حوصلہ افزائی

………محمد شریف شکیب……….

وفاقی حکومت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ٹیکس دھندگان کی حوصلہ افزائی کے لئے نئی اور منفرد مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مہم کاآغازپنجاب سے کیاجارہا ہے۔ بعد میں اس کا دائرہ پورے ملک تک بڑھایا جائے گا۔ مہم کے تحت تمام ترقیاتی منصوبوں کو سر فہرست ٹیکس دہندگان کے ناموں سے منسوب کیا جائے گا اور وہ مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کاافتتاح بھی کریں گے۔ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس دہندگان کی بڑی عزت افزائی کی جاتی ہے اور انہیں پرکشش مراعات بھی دی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کرتے ہیں ہمارے ہاں ٹیکس دینے کا رواج نہیں ہے اچھے خاصے کماتے کھاتے لوگ بھی سرکاری حکام کے سامنے خود کو مفلوک الحال ظاہر کرتے ہیں اس وجہ سے حکومت کو لوگوں سے زبردستی ٹیکس لینا پڑتا ہے۔ریاست کے زور پر ٹیکس لینے کی جب عادت پڑگئی تو حکومت نے بھی تنخواہ داروں کو نچوڑنا شروع کردیا۔ ماہانہ مشاہرے سے انکم ٹیکس کی کٹوتی کے علاوہ روزمرہ ضرورت کی اشیاء پر درجن بھر ٹیکس مختلف ناموں سے وصول کئے جاتے ہیں۔عوام سے وصول کئے جانے والے ٹیکسوں سے نہ صرف منتخب نمائندے اور سرکاری اہلکار تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں بلکہ ترقیاتی منصوبوں پر اپنے ناموں کی تختیاں بنواتے اور لاکھوں روپے ان کی افتتاحی تقریبات پر بھی اڑا دیتے ہیں۔صدر،وزیراعظم،گورنر، وزراء اعلیٰ،وفاقی و صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی، وزرائے مملکت، مشیران اور معاونین خصوصی کی سرکاری مصروفیات کا بیشتر حصہ ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقاریب میں شرکت کی نذر ہوجاتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح اور تختیوں کی نقاب کشائی ٹیکس دہندگان کے لئے مختص کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ منتخب اراکین کو عوامی مسائل پر غور کرنے کا موقع مل جائے گا۔ ہمارے ہاں ایک سیاسی روایت یہ بھی ہے کہ جب انتخابات قریب آتے ہیں تو پورے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھایا جاتا ہے۔ کوئی سڑک کی تعمیر کا افتتاح کررہا ہے تو کوئی پشتے، پل، نہر، سکول، ہسپتال اور آبنوشی کے منصوبے کا افتتاح کرنے میں مصروف ہے۔ زیادہ تر منصوبے تختی کی نقاب کشائی تک ہی محدود رہتے ہیں پھر حکومت کے دن پورے ہوجاتے ہیں نئی حکومت ادھورے منصوبے کوسابقہ حکومت کا غیر ضروری منصوبہ قرار دے کر بھول جاتی ہے۔تاہم ووٹ لینے کی خاطر اپنے دور حکومت کے آخری دنوں میں عوامی اصرار کی آڑ میں اس کا افتتاح بھی اپنے نمائندوں سے کراتی ہے۔ مختلف حکومتیں ایک ایک منصوبے کا تین تین مرتبہ افتتاح کرتی ہیں لیکن عملی کام شروع نہیں کرواتیں۔دیامربھاشا ڈیم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ گذشتہ بیس سالوں میں کوئی چار مرتبہ اس کا افتتاح ہوچکا ہے مگر دلی ہنوز دور است۔خیبر پختونخوا کے میگا منصوبے لواری ٹنل کا پہلی بار افتتاح سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔جنرل ضیاء نے منصوبے کو ختم کردیا۔ پھر جنرل مشرف نے منصوبے کا آغاز کرکے اس کا اپنے ہاتھوں افتتاح کیا۔ پیپلز پارٹی نے بھی اپنے دور حکومت میں ٹنل کی افتتاحی تقریب برپا کی۔ مسلم لیگ کی حکومت نے بھی اپنی روایت برقرار رکھی۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے 2017میں لواری ٹنل کے ذریعے آمدورفت کا افتتاح کیا۔ حالانکہ تین سال گذرنے کے باوجود وہاں تعمیراتی کام جاری ہے۔ دیر اور چترال سائٹ پر رابطہ سڑکیں ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں۔ سیکورٹی چیک پوانٹس، وینٹی لیشن سمیت مزید ایک سال کا کام اب بھی باقی ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی بجلی
گھروں سمیت متعددایسے منصوبوں کا افتتاح کیا ہے جن کا افتتاح ماضی کی حکومتیں کرچکی تھیں۔یہ سارا کھیل سیاسی مفادات حاصل کرنے اور ووٹ بٹورنے کے لئے کیاجاتا رہا۔ ترقیاتی منصوبے عوام کے ٹیکسوں سے شروع کئے جاتے ہیں ان میں افتتاح کرنے والے سیاسی لیڈروں کا چار آنے کا بھی مالیاتی تعاون نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی وزیر، مشیر یا رکن پارلیمنٹ اپنی جیب سے کوئی عوامی بہبود کا منصوبہ شروع کرے تو بیشک اس منصوبے کا افتتاح کرنا اور تختی پر اپنا نام کندہ کروانا اس کا استحقاق بنتا ہے۔حکومت کے اس فیصلے سے گلے میں ہار ڈالنے، زندہ باد کے نعرے لگوانے اور تختیوں کی نقاب کشائی کے لئے خصوصی پوز بنانے والے سیاست دان ضرور ناراض ہوں گے۔ ممکن ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف احتجاج اور دھرنا دینے کی دھمکی بھی دیدیں۔تاہم ترقیاتی منصوبوں کو ٹیکس دہندگان کے نام سے منسوب کرنے کا حکومتی فیصلہ بروقت اورانتہائی خوش آئند ہے۔اس سے نہ صرف قومی تعمیر میں حصہ لینے والوں کی خدمات کا اعتراف ہوگا بلکہ قومی سطح پرٹیکس گذاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی جس سے لامحالہ ٹیکس کلچر فروغ پائے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔