قبائلی علاقوں کی ترقی کا قومی کاز….محمد شریف شکیب

خیبرپختونخوا نے قبائلی اضلاع کے لئے تمام صوبوں سے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں اپنے حصے کا تین فیصد حصہ دینے کا مطالبہ کیاہے۔صوبائی مشیر اطلاعات نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ سے پہلے وزیراعظم کی زیر صدارت نیشنل اکنامک کونسل اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی نے شرکت کی تھی، وزیراعلی محمود خان نے کونسل میں ضم اضلاع کے 3 فیصد حصے کی بات اٹھائی اور سندھ حکومت سمیت تمام صوبوں سے اس پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا، کیونکہ اسی بنیاد پر قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا تھا۔ لیکن سندھ حکومت این ایف سی میں قبائلی عوام کو 3 فیصد حصہ نہیں دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔خیبر پختونخوا حکومت نے رواں سال کے این ایف سی ایوارڈ میں اپنے حصے کا تین فیصد قبائلی اضلاع کے لئے مختص کیا تھا۔ اس بجٹ میں بھی اپنا حصہ دیں گے، اگر دیگر صوبے ضم اضلاع کا تین فیصد حصہ دیں تو قبائلی اضلاع میں ترقی کا عمل مزید تیز کیا جاسکتا ہے۔دریں اثناء سندھ حکومت نے قبائلی اضلاع کے لئے این ایف سی سے 3 فیصد کااپنا حصہ دینے سے صاف انکار کردیا ہے۔ترجمان سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے کبھی قبائلی علاقوں کو مالی مراعات دینے کی مخالفت نہیں کی، سندھ حکومت کا موقف ہے کہ آئین پاکستان کے تحت این ایف سی فارمولا وفاق اور چاروں صوبائی حکومتیں طے کرتی ہیں، آئین کے تحت آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور قبائلی علاقوں کی دیکھ بھال وفاق کی ذمہ داری ہے، ہم آج بھی سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت اپنے حصے میں سے ان علاقوں کو مزید شیئر دے، اب چونکہ فاٹا خیبرپختون خوا کا حصہ ہے لہذا وفاقی حکومت کو خیبر پختونخوا کا شیئر بڑھانا چاہئے۔وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کی خیبر پختونخوا میں شمولیت کا فیصلہ قومی اتفاق رائے سے کیا گیا تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا یہ ماننا تھا کہ ماضی کی حکومتوں کی طرف سے فاٹا کو نظر اندازکرنے کے سبب وہاں مایوسی اور بد دلی پائی جاتی ہے روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے قبائلی نوجوان دہشت گردوں کا آلہ کار بننے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت یہ طے پایاتھا کہ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے نہ صرف وفاقی حکومت مالی وسائل فراہم کرے گی بلکہ چاروں صوبے قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت قابل تقسیم پول سے ملنے والے اپنے حصے کے وسائل کا تین فیصد قبائلی علاقوں کی ترقی کے لئے مختص کریں گے تاہم رواں مالی سال کے دوران خیبر پختونخوا کے سوا کسی صوبے نے اپنے حصے کے وسائل فراہم نہیں کئے اب سندھ حکومت نے قومی اتفاق رائے کے باوجود اپنے حصے کے وسائل فراہم کرنے سے گریز کرتے ہوئے ذمہ داری وفاق پر ڈال دی ہے۔قبائلی عوام کو اسی شرط پر خیبر پختونخوا میں شامل ہونے پر قائل کیاگیا تھا کہ وہ قومی سیاسی دھارے میں آئیں گے تو ان کو قومی وسائل میں ان کے حصے سے زیادہ ملیں گے اور خیبر، مہمند، باجوڑ، اورکزئی، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے عوام کو بھی وہ تمام شہری سہولیات فراہم کی جائیں گی جو کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور کے شہریوں کو حاصل ہیں۔بعض سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجودفاٹا میں رائج ایف سی آر کا قانون ختم کرکے عدالتوں سمیت پاکستان کے تمام ادارے قبائلی علاقوں میں قائم کرنے اور فاٹا کو خیبر پختونخوا کو شامل کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔صوبے میں شامل ہونے کے ثمرات ابھی تک قبائلی عوام کو نہیں ملے۔انہیں دہشت گردوں کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے نقصانات کا پورا معاوضہ ابھی نہیں ملا۔ وہاں کے عوام اعلیٰ تعلیم کے اداروں، ہسپتالوں، شاہراہوں اور ترقی کے دیگر لوازمات سے بھی تاحال محروم ہیں جس کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی ہے۔ خیبر پختونخوا مالی طور پر سب سے کمزور صوبہ تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن صوبہ ہونے کی وجہ سے اسے بہت زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔اب سات قبائلی اضلاع کا اضافی بوجھ بھی اس صوبے کے کندھوں پر آپڑا ہے۔اس صورت حال میں نہ صرف وفاقی حکومت کو قبائلی عوام کی زندگی کا معیار بہتر بنانے کے لئے خیبر پختونخوا کی زیادہ مدد کرنی چاہئے بلکہ تمام صوبوں کو ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کے لئے قبائلی عوام کی مددکرنی چاہئے۔دہشت گردی اور کورونا وباء سے نمٹنے کی طرح قبائلی علاقوں کی ترقی بھی قومی کازہے اور اس سے پہلو تہی کے لئے سیاسی اختلافات کو جواز نہیں بنایاجاسکتا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔