نوائے سُرود… شہرِ نامراد ….شہزادی کوثر

مادرِ وطن کے بیٹوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اپنی ہی بہن بیٹیوں کو چیرنے پھاڑنے لگے ہیں۔ماں کو اپنے بیٹوں پہ ناز ہوتا ہے ان کی موجودگی میں وہ خود کوسر بہ فلک چٹان تصور کرتی ہیں،بہنیں اپنے بھائیوں کے وجود کی خوشبو سے ہی خود کو محفوظ ومستحکم اور خوش نصیب سمجھتی ہیں کہ ان کی طرف اٹھنے والی میلی ٓانکھ کو پھوڑ ڈالیں گے۔ماں اپنی جوانی۔سکون وآرام قربان کر کے جس بیٹے کو ہمیشہ بیٹی پر ترجیح دیتی آئی ہے آج وہی بیٹا درندوں کی صف میں کھڑا اپنی وحشت ناک نظروں سے اس انسان کو گھور رہا ہے جسے عورت کہتے ہیں جو ماں اور بہن کا روپ دھار کر اس کے اپنے گھر میں بھی موجود ہے۔وہی عورت بیٹی کے نام سے اس کے وجود کا حصہ تصور ہوتی ہے۔لیکن عورت کے یہ تمام روپ مرد کی ہوس زدہ نظروں کا ہر روز شکار ہوتی ہیں۔اس کے پاس سے گزرنے والا ہر مرد ایسی نگاہوں سے اس کا تعاقب کرتا ہے کہ اسے اپنے عورت ہونے سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ عورت کہیں بھی محفوظ نہیں۔چاہے وہ چادر پہنے،عبا میں ہو یا شٹل کاک برقعے میں خود کو چھپا لے مرد کی چیرنے والی نگاہوں سے خود کو نہیں بچا سکتی۔اسے نہ گھر میں محفوظ قرار دیا جا سکتا ہے نہ ہی کسی مدرسے یا تعلیمی ادارے میں۔۔۔۔ وہ کہاں جائے کیا کرے؟ اگر کسی ضرورت کے تحت گھر سے نکلنا پڑے تو کوئی اسے شتر بے مہار کہتا ہے کوئی بھگوڑا،، جیسے لقب سے نوازتا ہے۔کسی نے آوارہ گرد کا لیبل لگایا تو کسی نے بد چلن ہونے کا الزام لگا دیا۔۔۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ لاکھوں میں ایک عورت بد چلن ہو سکتی ہے مگر سب نہیں ہوتیں۔ لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والے مرد بد چلن نہیں؟ انسان جیسا خود ہوتا ہے دوسروں کو بھی ویسا ہی سمجھتا ہے۔ ہر رنگین دوپٹے والی پر نظر پڑتے ہی ان کی رال ٹپکتی ہے،اس پر طرح طرح کے کمنٹس دیتے ہیں اور موقع ملے تو عورت کی عزت تک پامال کرنے والے مرد خود کو غیرت مند اور عزت دار سمجھتے ہیں۔آفرین ایسی سوچ اور گفتار والے شخص پر جو عورت کی عزت کرنا نہیں جانتا۔ جس معاشرے میں ایسے بھیڑیے دندناتے پھرتے ہوں وہاں کوئی بھی محفوظ نہیں۔ کیا عورت ہونا قصور ہے؟ کیا یہ ناقابلِ معافی گناہ اور اس کی سزا صرف عصمت دری ہی تجویز ہوئی ہے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قابلِ فخرسپوت دشمن سے لیا جانے والا انتقام بے کس و لاچار عورت سے لے رہے ہیں۔ روز کسی زینب،پلوشہ یا ٓاسما ٓکی معصومیت اور زندگی چھین کر معاشرے کے بیٹے اپنی فتح مندی کا جشن مناتے ہیں۔ نہ بچوں کے سامنے ماں کی آبرو محفوظ ہے نہ ہی شوہر کے سامنے بیوی کی، کوئی عورت کا قصور بتایے،اس کے نا کردہ گناہ کو تولے،کوئی توانصاف کرے۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
وہ کس دروازے پہ جا کر اپنی عزت بچانے کی بھیک مانگے گی۔ اگر بچوں کو غربت و افلاس سے بچانے کے لیے گھر سے نکلتی ہے تو ہر طرف سے گدھ اس پر منڈلانے لگتے ہیں۔دو وقت کی روٹی کے لیے معصوم بچوں کو گھر میں چھوڑ کر کسی کے گھر میں برتن مانجتی ہے تو وہاں اسے اپنے وجود پربرسنے والی تیروں کو بھی بر داشت کرنا پڑتا ہے۔کسی ادارے میں جائے تو وہاں اس کی روح سولی پہ لٹکائی جاتی ہے۔قانون کی چوکھٹ تو اس کے لیے بنی ہی نہیں۔ اگر ہمت کر کے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی بات کرے تب بھی انگلیاں اسی کی طرف اٹھتی ہیں اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ انصاف طلب کرے تو جواب آتا ہے کہ گھر سے کیوں نکلی تھی۔۔۔۔۔۔ کوئی مرد ساتھ کیوں نہیں تھا؟ اگر یہ مان بھی لیں کہ قصورعورت کا تھا جو موٹر وے پہ اکیلی نکلی تھی۔تو دوسری طرف لاہور والے واقعے میں تو عورت اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں تھی اس کے ساتھ درندگی کرنے والے کے بارے میں مرد کی کیا رائے ہو گی؟ عزت عورت کی نیلام ہو معاشرے میں وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے دنیا اس کی لٹ جائے اور قصور وار بھی وہ خود ہی ہو۔۔۔ نرالی منطق ہے۔۔۔۔۔اسے مجرم اس لیے قرار دیا جاتا ہے کہ وہ کمزور ہے،مجبور و لا چار۔۔۔۔ اسلام سے پہلے بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے کی رسم اگرچہ قبیح تھی لیکن اس میں عورت ہی کا فائدہ تھا کم از کم لٹنے سے تو بچ جاتی تھی اس کی عزت تو محفوظ رہتی تھی۔۔ کاش! کوئی ایسی دنیا ہوتی جہاں جا کر وہ چھپ جاتی جہاں اسے دیکھ کر کسی منحوس مرد کی نگاہوں میں لالچ کا الاو نہ جلتا۔کسی بے غیرت کے ذہن میں کوئی شیطانی خیال سر نہ اٹھانے پاتا کیونکہ یہ دنیا اس کے لیے شہرِ نامراد بن گئی ہے، کاش! عورت اس شہرِ نامراد سے اپنے خیمے سمیٹ پاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔