دھڑکنوں کی زبان…”ہم احتجاج نہ کرتے تو اور کیا کرتے…”محمد جاوید حیات

جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ عوام کی زبان،اس کے اظہارراے کے حق اورحقوق کی آواز پر کوئی قدعن نہیں ہوتا۔۔حکمران احتساب اور تنقید کے لیے تیار رہتا ہے۔حکمران کا کام عوام کے حقوق کی حفاظت اور ان کر سہولیات بہم پہنچانا ہے۔۔موجودہ حکومت ایک جمہوری حکومت ہے۔۔۔معاشرے کے ہر طبقے کی حکومت ہے خواہ مزدور ہو خواہ نوکر ہو۔تاجر ہو دکاندار ہو۔بیروزگار ہو برسر روزگار ہو۔سب کو بات کرنے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا حق ہے اس کے لیے موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی آزادی راے کے لییعملی اقدامات کے۔ سیٹزن پوٹل متعارف کرایا۔وہاں پر ہر ایک آواز حکمرانوں تک پہچنے کے امکانات ہیں۔ملک میں حقوق کی پاسداری ہوگی اور انصاف کا بول بالا ہوگا یہ حکومت۔کا نعرہ تھا۔حکومت کو معیشت تباہ شدہ ملی خزانہ خالی ملا یہ اپنی جگہ لیکن ملازمیں یہ سب محسوس کرتے ہوے بھی مخمصے کا اس لیے شکار رہے کہ ایک طرف ان کو مراعات سے محروم رکھا گیا دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے کو مذید مراعات ملے۔قوم کے نمایندوں کی تنخوہیں اتنی بڑھای گیں کہ عام ملاز میں سٹپٹا گیے۔پھر بد خواہ ہوں یا سیاسی مخالفیں وہ اس بات کو لے کر آگے بڑھے کہا حکومت پنشن ختم کر رہی ہے۔انکریمنٹ ختم کر رہی ہے۔۔عمر کی حد کم کر رہی ہے۔۔یہ سب تبصرے ملازم طبقے کی بے چینیان بڑھا گیں۔ اب غلط فہمی دور کرنی تھی حکومت کی نیت شاید ایسی نہیں تھی اس سے ملازم طبقہ کو باخبر مطمین اور ان کی پریشایاں دور کرنی تھیں۔احتجاج ہوا۔یہ احتجاج نہیں گلہ تھا کہ۔۔ارے حکمرانو تم ہمارے حکمران ہوں تمہارے ہوتے ہوے ہم بے چین کیون ہوں۔۔احتجاج ہوا حکومت نی تسلی دی کہ ایسی ویسی باتیں۔۔پھیلاء ہوء باتیں ہیں۔۔یہ جمہوریت کا حسن ہے۔۔یہ احتجاج کرنے والے قوم کی تقدیر ہیں کوء استاد ہے کوء کسی محکمے کے دفتر میں بیٹھا ماہانہ تنخواہ کا انتظار کرنے ولے وہ ملازم ہے جس کو اپنی گھٹتی عمر کا اندازہ نہیں ہوتا اوہ دن گنتا ہے اس کو اپنی بچی کی چوڑیوں کے انتظار میں منتظر نگاہیں رہ رہ کے یاد آتی ہیں۔اس کو اس کا سکول جاتا بچہ یاد آتا ہے جس کے گزرے مہینے کی فیس بھرے نہیں جب تنخواہ ملے گی اس دن اس کا بچہ مسکراتا سینہ پھیلاتا اور سر اٹھاتا سکول جایے گا۔۔احتجاج میں شاید حکومت کو برا بھلا کہا ہو لیکن تسلی ہونے کے بعد وہ دعا دے رہا ہے۔ہم نے احتجاج کیا اچھا کیا۔۔شکوہ کیا گلہ کیا۔۔ہماری بات سنی گء۔۔۔بات سننا جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔۔مطلق العنانیت کی بد بختی یہ ہے کہ بات نہیں سنی جاتی۔۔۔جون نے اس لیے کہا تھا
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یوں کہ آج تک
بات نہیں کہی گء بات نہیں سنی گء
ملک خداداد میں ہمارا بھی تجربہ رہا ہے کہ بات نہیں سنی جاتی تھی۔۔۔جمہوری دور میں کم از کم بات سنی جاتی ہے۔یہ حکومت کی جمہوری ہونے کی کریڈٹ ہے یہ رہنی چاہیے..

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔