چترال میں ہلاکت خیز پراسرارامراض……محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا کابینہ نے گذشتہ روز ضلع چترال میں عالمی وباء کورونا، امراض قلب اور گردوں کی بیماری میں غیر معمولی اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ صحت کو اس حوالے سے حقائق معلوم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ صوبائی حکومت کی ہدایت پر ڈائریکٹر جنرل صحت نے چترال کا دورہ کیاتھا جس کی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی۔رقبے کے لحاظ سے صوبے کے سب سے بڑے ضلع اپر و لوئر چترال میں عمومی طور پر لوگ سادہ زندگی گذارتے ہیں وہاں جوائنٹ فیملی سسٹم بدستور موجود ہے کھانے پینے میں لوگ گھریلو اشیاء زیادہ استعمال کرتے ہیں دودھ سے بنی اشیائے خوردونوش کا استعمال زیادہ ہے، وہاں پر سبزہ ہے، تازہ ہوا اور قدرتی ماحول پایاجاتا ہے اس کے باوجود امراض قلب اور گردوں کی بیماریوں میں گذشتہ چند سالوں کے اندرغیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ صرف اپر چترال کے تاریخی گاؤں ریشن میں گذشتہ ایک سال کے دوران دو درجن سے زیادہ افراد ایک پراسرار بیماری کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن چکے ہیں ان میں زیادہ تر تعداد بیس سے چالیس سال تک کی عمر کے افراد کی تھی۔ان پر اچانک غشی طاری ہوتی ہے۔پسینے چھوٹتے ہیں اور چند گھنٹوں کے اندر سانسوں کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے۔بونی، سنوغر، بریپ،آوی، کوشٹ، پرواک اور اپر چترال کے دیگر علاقوں میں بھی ایسی اموات رونما ہوئی ہیں۔جہاں تک طبی سہولیات کا تعلق ہے۔ لوئر چترال کے ڈی ایچ کیو اور اپر چترال کے بونی تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بنیادی سہولیات اور ماہر ڈاکٹروں کے فقدان کی وجہ سے مریضوں کو پشاور ریفر کیاجاتا ہے اور زیادہ تر مریض راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔گذشتہ روز انہی سطور میں صوبائی حکومت اور محکمہ صحت کی توجہ اس مسئلے پر مبذول کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔صوبائی حکومت نے دیہی علاقوں کے طبی مراکز میں خدمات انجام دینے کے لئے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی تنخواہوں اور مراعات میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ ڈی ایچ کیو، ٹی ایچ کیو، بی ایچ یو اور آر ایچ سی میں ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹروں کو ڈھائی تین لاکھ کی تنخواہ اور الاونسز دیئے جاتے ہیں اس کے باوجود ماہر ڈاکٹر دیہی علاقوں میں جاکر عوام کی خدمت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔کیونکہ شہروں میں کلینک کھول کر وہ ماہانہ سرکاری تنخواہ سے چار پانچ سو فیصد زیادہ کماتے ہیں۔ڈی ایچ کیوچترال میں گردوں کی صفائی کے لئے ایک ڈائیلاسز مشین موجود ہے جو مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر خراب ہوجاتی ہے۔ اس لئے گردوں کے عارضے میں مبتلا مریضوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی جانیں بچانے کے لئے انہیں پشاور لانے پر مجبور ہیں دیہی علاقوں کے ہسپتالوں میں ماہر امراض قلب، نیورو فیزیشن اور دیگر پیچیدہ بیماریوں کے ماہرین کی اسامیاں ہی موجود نہیں۔شہری ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو تمام ضروری طبی آلات، سہولیات اورضروری سٹاف کی فراہمی ناگزیر ہے۔صوبائی حکومت، محکمہ صحت، میڈیکل یونیورسٹی اور صوبے کی جامعات کو طبی تحقیق پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے پاس طب کے مختلف شعبوں کے ماہرین موجود ہیں انہیں پراسرار بیماریوں کی وجوہات جاننے کے لئے تحقیق کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے۔ بحیثیت قوم ہم زندگی کے کسی بھی شعبے میں تحقیق کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے، اس کام کو ہم نے مغربی اقوام پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ تحقیق کی بنیاد پر جو چیز تیار کریں ہم اس کا چربہ بنانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔علم و گنان اور تحقیق و تجربات سے جی چرانے کی وجہ سے ہم پستی کی جانب گامزن ہیں اقوام عالم میں مسلمان جب سب سے معتبر تھے اس کی بنیادی وجہ ان کی علم دوستی تھی اس دور میں عالم اسلام نے نامور سائنس دان، ریاضی دان، ماہرین علم نجوم و نباتات و کائنات پیدا کئے۔ان ہی کے علم اور تجربے کو لے کر مغربی اقوام آگے چلنے لگے اور پوری دنیا کو تسخیر کرلیا۔ہمارے اطباء طب اسلامی کی بنیاد پر ہر مرض کا علاج کرتے تھے۔ آج ہمارے سائنس دان سرطان، ایڈز، تپ دق، یرقان، امراض قلب، گردوں اور خون کے امراض کا کوئی مجرب دوا کیوں تیار نہیں کرسکتے۔ہرمسئلے کے حل کے لئے دوسروں پر انحصار کیوں کیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے تعلیم و تحقیق کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ہے اور اس کے لئے اربوں روپے کا فنڈ مختص کیا گیا ہے وزیراعلیٰ خود نوٹس لیں کہ چترال کے شفاف اور قدرتی ماحول میں رہنے والے لوگ پراسرار اور مہلک بیماریوں کا شکار کیوں ہورہے ہیں لوگوں کے طرز زندگی میں ایسی کیاتبدیلیاں آئی ہیں جن کی وجہ سے وہ مہلک امراض کا شکار بن رہے ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔