سوشل میڈیاپر چترال گول نیشنل پارک میں مارخورکی تعداد کے متعلق عجیب خبریں۔تحریر:محمد ایوب

آجکل چترال گول نیشنل پارک میں مارخور کی ایک بڑی تعداد کے اچانک کم ہونے کی خبریں زبان زد عام ہیں اور پچھلے کئی دنوں سے اس متعلق عجیب خبریں سوشل میڈیا میں گردش کرتے سب نے دیکھے اور سنے ہیں، یہاں تک اچھے خاصے سیاسی و سماجی اشخاص کے دبنگ الفاظ میں پریس کانفرنس بھی سب کے نظروں سے گزر چکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
واقعہ یوں ہے کہ پارک ایسوسیشن کے بانی جناب حسین احمد صاحب و ٹیم کا دعوی یہ ہے کہ
”2019 مارخور سروے کیمطابق مارخور کی کل تعداد 2850 تھی اور سن 2000 میں یہ تعداد کم ہوکر 2000 رہ گئی۔ یہ تعداد وائلڈ لائف کے مطابق ہے، لیکن ہمارے مطابق یہ تعداد 800 ہے اور تشویش ناک حد تک کم ہو گئی ہے”۔۔۔

(واضح رہے کہ 2019 میں مارخور سروے تیسرے فریق یعنی سنو لیپرڈ فاونڈیشن سے کروائی گئی تھی اور ایس ایل ایف نے بذریعہ ڈبل اوبزرویشن میتھرڈ یہ سروے کنڈکٹ کی تھیں)
ایک سال کے دوران ان بیش قیمت جانوروں کی 800 کی ایک بڑی تعداد کورزون سے غائب ہونے پر رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی صاحب نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں اس حد تک کہہ چکا ہے
کہ ”چترال گول نیشنل پارک میں قومی جانوروں کا غیر قانونی شکار ہو رہا ہے اور ان کا گوشت اسلام آباد میں سپلائی کیا جاتا ہے، جن کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ مارخوروں کی تعداد تشویش ناک حد تک کم گئی ہے۔ مارخوروں کا غیر قانونی شکار کیا جاتا ہے، جس میں حکومتی اہلکار ملوث ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس مسئلے کے بارے میں متعلقہ حکام کو آگاہ کردیا گیا ہے لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، جس سے مارخوروں کی نسل ختم ہوتی جارہی ہے)۔۔۔۔۔
چونکہ اس سنگین صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے خیبر پختونخواہ حکومت کی ہدایت پر ایک سہ فریقی ٹیم پچھلے چند دنوں سے مارخور سروے 2021 میں مصروف ہے، جسمیں کمیونیٹی ایسوسیشن، جیولاجیکل سروے آف پاکستان، مینیسٹری اف اینوائرمنٹ و آئی یو سی این کی مشترکہ ٹیم اور وائلڈ لائف چترال کے اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق اب تک مارخور کی کل تعداد 2800 سو سے تجاوز کر چکی ہے اور یہ 3000 تک پہنچنے کے بھی دعوی کئے جارہے ہیں لیکن حتمی شماریاتی ڈیٹا منظر عام آنے تک کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تاہم تحریر ھذا کی رو سے ذاتی طور پر فریقین سے بذائل گزارشات کرنا چاھتا ہوں۔
یہ کہ چترال گول نیشنل پارک 1983 میں ذاتی ملکیت سے نکل کر محکمہ وائلڈ لائف اور چترال کمیونیٹی کے اجتماعی ملکیت میں آنے کے بعد مختلف اقسام کے جنگلی حیات کی آماجگاہ ہونے کی بنا نیشنل پارک قرار دی گئی۔ جہاں نسل کشی اور پروان چڑھنے کے بعد یہ کور زون سے بفر زون تک پھیلتے گئے، نتیجتاً” علاقے کی خوبصورتی کیساتھ ساتھ اجتماعی آمدن کے اہم ذرائع بنے ہوئے ہیں۔
پہلی مرتبہ 1986میں جب ہم نے بیرموغلشٹ پھر میرن تک ٹریکینگ کئے تھے اسوقت ان علاقوں میں ہمیں دور پہاڑوں کی بلندیوں پر دوربین سے چند ایک ہی مارخور نظر آئے تھے، اسکی وجہ شاید علاقے میں منظم نگرانی کا نہ ہونے کی وجہ سے چور شکاروں کی مداخلت ہی ہو سکتا تھا۔
1984 سے 2000 تک محکمہ وائلڈ لائف اپنے چند ایک واچروں کیساتھ نیشنل پارک کے انتظام و انصرام اور کنزرویشن کے حوالے کلیدی کردار کرتے ہوئے جنگی حیات میں سالہا سال اضافے کی داغ بیل ڈالی۔
2001 میں جب ایک پراجکٹ”PAMP” لنچ ہوا تو کور اور بفر زون کمیونیٹی آرگنائزیشنز بھی منظر عام پر آنے لگے۔ ہر کمیونیٹی نے اپنی طرف سے دو دو واچر پارک نگرانی کی خاطر ”پیمپ” کے حوالے کئے۔ وائلڈلائف کیساتھ مل کر ان بیس پچیس نوجوانوں نے جس محنت و جانفشانی سے پارک کنزرویشن کیلئے جو بے مثال خدمات انجام دیئے ہیں، اس کا ادراک پارک میں داخل ہوئے ہر بندے کو ہوگا۔ چاہے جون جولائی کی تپتی دھوپ اور روزوں کے ایام ہوں یا دسمبر جنوری کی 20- کی ٹھٹرتی خنک دن راتیں، یہ چاق وچوبند نوجوان اپنی جانی خطرے کی پرواہ کئے بغیر پارک کے ہر سو اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں ہمیشہ مگن دیکھے ہیں۔ اگر میں ان حضرات کے فردا” خدمات گنوانے بیٹھ جاوں تو شاید احاطہ کر نہ پا سکوں۔ پارک واچر سے لیکر ڈی ایف او تک ہم نے انتہائی جانفشانی سے ڈیوٹی پر ہر وقت معمور پائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پندرہ بیس سالوں کے عرصے میں پارک میں مارخور کی تعداد دسیوں سے شروع ہوکر ہزاروں تک جا پہنچے ہیں۔
اب جبکہ پچھلے سال شاید انسانی غلطی کی وجہ سے مارخور کی تعداد کم ہوئی ہو تو کمیونیٹی آرگنائزیشن کے ذمہ داران کو اتنی عجلت میں کوئی فیصلہ صادر کرکے تمام تر غلطیوں کا ذمہ دار متعلقہ محکمے کے اہلکاروں کو نہیں ٹھہرانا چاہئے تھا۔ دو سال کے عرصے میں کوئی شکاری 80 چڑیے مار نہیں سکتا،800 سو مارخور غائب کرنا تو سنگین دہشتگردی کے مترادف ہے۔ ہاں بقول کمیونیٹی ذمہ داران اگر گوشت یا مارخور کی ڈاون ڈسٹرکٹ سپلائی کرنے کے مستند ثبوت و شواہد موجود ہیں تو اسے عوام کے سامنے لائیں تاکہ دودھ کا دودھ ہوسکے، نہیں تو یہ کمیونیٹی آرگنائزیشن کی طرف سے الزام تراشی و تہمت لگانے کے زمرے شمار کیا جائے گا اور کسی ادارے، فرد یا افراد کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچانے کا موجب بنے گا اور متاثرین ہتک عزت کی قانونی چراجوئی اختیار کرنے کا بھر پور حق رکھیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑے لہذا فریقین کو ایک دوسرے پر الزامات تھوپنے کے بجائے بڑی سنجیدگی اور دانشمندی سے موجودہ حالات و واقعات الجھانے کے بجائے سلجھاناچاھئے۔ واللہ عالم بالثواب

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔