اہم ثالثی کا خوشگوار نتیجہ…محمدشریف شکیب

مشرق وسطیٰ کے دو دیرینہ حریف اسلامی ممالک ایران اور سعودی عرب نے چین کی ثالثی کے نتیجے میں کئی برسوں سے منقطع سفارتی تعلقات بحال کرنے اور ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کااعلان کیا ہے۔ 2016 میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات اس وقت منقطع ہوئے تھے جب سعودی عرب میں ایک معروف شیعہ عالم کو پھانسی دینے پرتہران میں مظاہرین نے سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا تھا۔مشرق وسطیٰ میں بالادستی کے لیے مقابلہ کرنے والے یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے ہیں اور اس مقابلے میں دونوں ممالک لبنان، شام، عراق اور یمن سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں جاری تنازعات میں حریف دھڑوں کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ایران جہاں یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کرتا ہے وہیں سعودی عرب ان باغیوں کے خلاف فضائی حملے کرتا ہے۔مگر ان تمام تر تنازعات کے باوجود اب ان دونوں ممالک نے ماضی کی تلخیاں بھلا کر نئی شروعات کا فیصلہ کیا ہے۔سفارتی تعلقات کی عدم موجودگی میں گذشتہ سات برسوں کے دوران ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کم کروانے کے معاہدے تک پہنچنے کی متعدد کوششیں کی گئیں تاہم اس میں کامیابی چین کی ثالثی کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔اس معاہدے کے مطابق دونوں ممالک نے کہا ہے کہ وہ دو ماہ کے اندر اپنے اپنے سفارت خانے کھول دیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ کاروباری اور سیکورٹی تعلقات کو دوبارہ قائم کریں گے۔حیران کن طور پرامریکہ نے اس پیشرفت کا خیرمقدم کیا ہے وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ ’بائیڈن انتظامیہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت کرتی ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا سعودی عرب اور ایران اس معاہدے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائیں گے یا نہیں۔‘اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے کی ثالثی پر چین کا شکریہ ادا کیا ہے۔اسرائیلی حکومت نے ابھی تک اس معاہدے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اس فیصلے کو اسرائیل کے لیےخطرناک قرار دیا ہے۔ایران کے مبینہ جوہری پروگرام کی وجہ سے اسرائیل ایران پر زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی دباؤ ڈالنے کا حامی رہا ہے۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اس معاہدے نے مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے کیونکہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔دونوں کے درمیان تاریخی طور پر گہرا عدم اعتماد پر مبنی رشتہ رہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب 2015 میں اس وقت آمنے سامنے آئے تھے جب مکہ میں حج کے دوران بھگدڑ مچنے سے 139 ایرانی زائرین جاں بحق ہو گئے تھے۔ایران نے سعودی حکومت پر بے حسی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جائے گا۔ اس کے اگلے ہی برس 2016 میں سعودی عرب نے ممتاز شیعہ عالم نمر النمر سمیت 47 افراد کو دہشت گردی کے الزام میں پھانسی دے دی۔جس کےردعمل میں سعودی عرب نے ایران کےساتھ سیاسی،تجارتی اور سفارتی تعلقات ختم کردیئے تھے۔دونوں حریف ملکوں کے درمیان حالیہ معاہدے کے بعد یہ باور کیاجاسکتا ہے کہ وہ خطے کی اصل سیاسی حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں۔دونوں جانتے ہیں کہ وہ ایک خطرناک علاقے میں رہ رہے ہیں اور بہتر ہے کہ اگر وہ یہاں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو باہمی دشمنی چھوڑ دیں۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے عوام کو کس حدتک ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کےعمل میں چین کا عمل دخل بہت دلچسپ ہے۔ یہ معاہدہ چین کے اعلیٰ سفارتکار کی ثالثی میں کیا گیا ہے اور اسے مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔سعودی عرب اور خطے کے کچھ دوسرے ممالک محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی سلامتی کی ضروریات کے لیے اب فقط امریکہ پر انحصار نہیں کر سکتے امریکہ نے مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کو عرب سپرنگ کے دوران اپنا دفاع کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔ عرب ممالک نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح روس نے شام کی بشار الاسد حکومت کی حمایت کی جب کہ ان کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مقدمات بھی تھے۔سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے امریکی خارجہ پالیسی میں مشرقی خطے اور ایشیا پیسفک خطے کو اہمیت دینے کا اعلان کیا تو عرب ممالک نے محسوس کیا کہ وہ اپنی سلامتی کی ضروریات کے لیے امریکہ پر مزید اعتماد نہیں کر سکتے۔حالانکہ امریکہ اب بھی وہ ملک ہے جو سعودی عرب کی سلامتی کا ضامن ہے اور ہتھیاروں کے معاملے میں اس کا اہم سپلائر بھی ہے۔ لیکن اب عرب ممالک اپنے سفارتی تعلقات کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایران سعودی عرب تعلقات کی بحالی کا سیاسی اور تجارتی فائدہ چین کو ہوسکتا ہے تاہم عالم اسلام کو اس کا معاشی طور پر فائدہ ہوگا۔ خطے میں کشیدگی میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔خلیج کے یہ دونوں ممالک تیل اور دیگر قدرتی وسائل سےمالامال ہیں۔ کشیدگی میں کمی سے ان وسائل کو باہمی طور پر ترقی کےلئے بروئےکار لانے میں مدد ملےگی۔دونوں ملکوں کو احساس ضرور ہوا ہوگا کہ محاذآرائی سےدونوں ملکوں کو فائدہ کچھ نہیں ہوا تاہم دونوں نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت اس حقیقت کا بھی مظہر ہے کہ محاذ آرائی سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھتےہیں۔ ہر تنازعے کاحل صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔