دادبیداد..الٹی سیدھی خبریں..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
عید کے دنوں کی خبروں نے ہمیں عجیب مخمصے میں مبتلا کیا ہے۔ایک خبر یہ تھی کہ عید کے دو دنوں میں پشاور کے بڑے ہسپتالوں میں 9ہزار مریض لائے گئے جن میں سے1800مریضوں کوحد سے زیادہ گوشت کھانے سے بیماری لگی تھی۔دوسری خبر یہ ہے کہ عید کے دودنوں میں ہنگامی حالات سے نمٹنے والے ادارے ریسکیو1122کو14ہزار ٹیلیفون کالیں وصول ہوئیں ان میں 5ہزار کالیں جعلی تھیں یعنی کوئی ہنگامی واقعہ نہیں ہوا تھا لوگوں نے شرارت کرکے ایمبولینس دوڑایا اور تیل ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ادارے کی نظرمیں عوام کااعتبار بھی برباد کردیا ایک اور خبر یہ ہے کہ ریسکیواورپولیس سٹیشنوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق عید کے دودنوں میں صوبہ خیبرپختونخواہ میں 273بے گناہ لوگ مختلف نوعیت کی انسانی آفتوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے،کچھ حادثات میں مرگئے کچھ پانی میں ڈوب گئے کچھ دشمنی کی زد میں آکر گولی کا نشانہ بنے قدرتی آفتوں اور سرحد پار دہشت گردی میں مرنے والے اس کے علاوہ ہیں جس چیزنے ہمیں مخمصے میں مبتلا کیا وہ یہ ہے کہ ایک دن کے چار اخبارات کوکسی جاپانی،فرانسیی،برطانوی،جرمن یاامریکی شہری نے پڑھ لیاتو وہ خیبرپختونخواہ اور اس کے دارالخلافہ پشاور کے عوام کی ذہنی کیفیت کے بارے میں کیا رائے قائم کرے گا اس کے لئے مزید حیرت کی بات یہ ہوگی کہ عید کے دودنوں میں پاکستان کے شہروں سے جانوروں کی آلائشوں کے تعفن اور اس کی گندگی کے علاوہ کوئی خوش گوار خبر نہیں ملی،کراچی،لاہور،ملتان،راولپنڈی اور پشاور میں جوماحولیاتی آلودگی اور بدبوپھیلی اس پرحکومتی حلقے ایک دوسرے کومبارک باد دے رہے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں کہ صفائی کے لئے بہترین انتظامات کئے اس کے مقابلے میں عوامی حلقوں کی طرف سے ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر واویلا ہورہا ہے کہ میونسپل ورکرز نے کوئی انتظام نہیں کیا شہریوں کے ناک میں دم ہوگیا ہے سانس لینا محال ہوا ہے تل دھرنے کوصاف جگہ میسر نہیں گویا حکومت جھوٹ بول رہی ہے اور یقینا حکومتی دعووں میں بہت کم صداقت ہوتی ہے راحت اندوری نے اپنے ملک کی سرکار کے بارے میں ایک شعر کہاتھا۔۔۔
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو
بڑی عید کوعید الاضحی اور عید قربان بھی کہتے ہیں اسے بقر عید اور بکراعید بھی کہا جاتا ہے بچوں کی زبان میں چھوٹی عید کو میٹھی عید اور بڑی عید کو نمکین عید کہتے ہیں اس عید کی بڑی عبادت اور دیگرعبادات کاثواب کسی کو یاد رہے یانہ رہے اس کاباربی کیو،کڑاہی،تکہ،کباب سب کویاد رہتا ہے اس کی بریانی کوہر ایک یادرکھتا ہے میونسپل ورکرز کی کارکردگی کو بھی کوئی نہیں بھولتا ایک اوربات جویاد رہتی ہے وہ شہروں کے اندر کھال جمع کرنے والوں کی آپس میں چھینا جھپٹی ہے ایک جانور ذبح ہورہا ہے توچار تنظیموں اورسات مدارس کی نمایندے کھال کے انتظار میں رہتے ہیں کھال اُترتے ہی سب اس پر جھپٹتے ہیں پھر ان کی آپس میں قیامت کی دینگا مشتی ہوتی ہے محلے کے جس گھر میں دوچار جانور بندھے ہوتے ہوں اور قصائی کاانتظارہورہا ہواُس گھر کے لئے کھال والے رحمت کے فرشتے ثابت ہوتے ہیں خود ذبیحہ کرکے کھال اُتارتے ہیں اور کسی دوسرے کی نظر میں آنے سے پہلے کھال سوزوکی میں ڈال کر رفوچکر ہوجاتے ہیں جس تنظیم یامدرسے کے پاس شوقیہ قصائیوں کی افرادی قوت ہوتی ہے وہ کھالوں کے معاملے میں خوش قسمت ثابت ہوتے ہیں اس عید پرمجھے ہرسال یہ بات ستاتی ہے کہ قربانی کی کھال،اس کے گوشت اور اس کی الائشوں سے پیدا ہونے والی ناگوار صورت حال میں ہم حضرت ابراہیم ﷺ کی ازمائش،حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اور اس عظیم عبادت کے پس منظر میں ملنے والے سبق کویکسر بھول جاتے ہیں یہاں تک قربانی کے گوشت کاتہائی تہائی والا فارمولا بھی ہمیں یاد نہیں رہتا صرف ڈیپ فریزر یاد رہتا ہے ساراگوشت چھ سات مہینوں کے لئے سائنسی ایجادات کی مدد سے منجمد کرکے رکھ لیتے ہیں غربااورمساکین اور قریبی رشتہ دار قربانی میں اپنے حصے کاگوشت حاصل نہیں کرپاتے جس محلے میں 100جانوروں کی قربانی ہوتی ہے۔اس محلے کے غربا اور مساکین دال کھاکر سوجاتے ہیں یہ بھی ایک خبر ہے اور یہ بھی ایک مخمصہ ہے۔