داد بیداد۔۔۔مکتی باہنی۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ہر سال دسمبر کا مہینہ مشرقی پا کستان کی یا د دلا تا ہے، اس پر 50سے زیا دہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں یو ٹیو ب پر بہت سارا مواد مو جود ہے مگر ایک بات کھل کر سامنے نہیں آتی کہ ”مکتی با ہنی“ کیسی تنظیم تھی؟ یہ بات طے ہے کہ مکتی با ہنی ایک سیا سی جما عت عوامی لیگ کی ذیلی تنظیم تھی اس کو جدید ترین ذرائع ابلاغ یعنی کمیو نیکیشن سسٹم دیئے گئے تھے، فو جی تر بیت دی گئی تھی بہترین گاڑیاں اور جدید ترین فو جی کشتیاں بھی دے دی گئی تھیں اس پر اربوں روپے کی سرما یہ کاری ہوئی تھی اور یہ سرما یہ دشمن ملک کا تھا دشمن کا منصو بہ یہ تھا کہ پا کستان کی فو ج کے ساتھ دو بدو لڑا ئی لڑنے کے بجائے پا کستان کے اندر سے لڑنے والے لو گ تیا ر کئے جا ئیں یہ لو گ اپنی حکومت کے خلا ف لڑ کر حکومت کو کمزور کرینگے تو دشمن کا کا م آسان ہو گا اور ایسا ہی ہوا تحقیق کرنے والوں پر یہ راز اب آشکار ہو چکا ہے کہ مکتی با ہنی کو دشمن نے جو کام سونپا تھا وہ چار مر حلوں پر مشتمل تھا پہلا مر حلہ یہ تھا کہ پا کستان کے افیسروں کی تضحیک و تحقیر کی جا ئے دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ پا کستان کی عدلیہ کو ڈرا دھمکا کر مر غوب اور مغلوب کیا جا ئے، تیسرا مر حلہ یہ تھا کہ پا کستان کے سیاست دانوں کی تذلیل کی جا ئے، سیا سی جما عتوں کو تحقیر اور تو ہین کا نشانہ بنا یا جا ئے چو تھا مر حلہ یہ تھا کہ پا کستان کی فوج کے خلا ف ہتھیار اٹھا کر خا نہ جنگی کے ذریعے پا کستان کو کمزور کیا جا ئے یہ چار مرا حل تھے مکتی با ہنی نے دشمن کی طرف سے ملنے والے وسائل اور بے پنا ہ دولت سے فائدہ اٹھا کر ایک ایک کر کے تما م مراحل پر کام کیا جب خا نہ جنگی انتہا کو پہنچ گئی تو مکتی با ہنی نے دشمن کو بلا کر مشرقی پا کستان ان کے حوالے کیا جس کا نا م دشمن نے بنگلہ دیش رکھ دیا اور یہ کام مکتی با ہنی کے ساتھ دشمن کے ابتدائی معا ہدے کا حصہ تھا مکتی با ہنی تایخ کا ایک باب ہی نہیں علا قائی سیا ست اور خفیہ سفارت کاری، جا سوسی اور خا نہ جنگی کا تجربہ بھی ہے نصف صدی گذر نے کے باو جود یہ تجربہ پرا نا نہیں ہوا مکتی با ہنی آج بھی مو جود ہے نا م بدل گیا ہے اور سیا نوں کا قول ہے کہ نا م میں کیا رکھا ہے نصف صدی پہلے سوشل میڈیا نہیں تھا اس کی جگہ لاوڈ سپیکر اور میگا فون استعمال ہوتا تھا، وائر لیس پیغا مات بھیجے جا تے تھے، ٹیلی گرام دیے جا تے تھے لینڈ لائن پر فون کیا جا تا تھا نصف صدی گذر نے کے بعد سوشل میڈیا بھی آگیا ہے آج پا کستان کے افیسروں کے خلاف مہم سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی ہے پا کستان کے افیسروں اور سیا ستدانوں کی سوشل میڈیا کے ذریعے ہتک، تضحیک اور تحقیر کی جا رہی ہے، سرکاری گاڑیوں کی تصاویر اپلوڈ کر کے لوگوں کو بتا یا جا رہا ہے کہ گاڑیاں افیسروں کو کس لئے دی گئی ہیں؟ سیا ست دانوں کی کر دار کشی کے لئے بھی سوشل میڈیا پر مسخ شدہ تصاویر فو ٹو شاپ کے ذریعے لائی جا رہی ہیں چند الزا مات کو دہرا نے کے بعد چند اور الزا مات کا اضا فہ کیا جا تا ہے اور عوام کو بتا یا جا تا ہے کہ تمہارے لیڈروں کی کوئی اوقات نہیں اس طرح معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ اور انار کی کو ہوا دی جا رہی ہے عدالتی نظام اور ججوں کے خلاف سو چی سمجھی مہم چلا ئی جا رہی ہے نصف صدی پہلے کھلنا، جیسور،کرنا فلی اورڈھا کہ میں بھی ایسا ہی ہو رہا تھا مشرقی پا کستان کے آخری دنوں میں جن لکھا ریوں نے اپنی یا د داشتیں لکھی ہیں ان میں یہ تمام تفصیلات مو جو د ہیں عدلیہ کے ساتھ ساتھ پا ک فو ج کو بھی زیر بحث لا یا جا رہا ہے یہ کام بھی مکتی با ہنی کو ملنے والے اہداف میں شامل تھا اور یہ آخری مر حلے کا ایک نمایاں ہدف تھا تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا پھر بھی آج کل کے ملکی حا لات کو مکتی با ہنی کے تنا ظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے شاید آج منفی سر گرمی دکھا نے والوں کی مکتی با ہنی سے مما ثلت ہماری سمجھ میں آجائے اور یہ بھی پتہ لگے کہ اس انار کی کے پیچھے کس دشمن کا ہا تھاہے؟

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔