( ‘‘رموز شاد۔۔۔۔اپٹا،کے پی کے کے صدر کے نام ایک تحریر

………..(ارشاد اللہ شادؔ ۔بکرآباد چترال)……..
بعض لوگ عجیب ہوتے ہیں ہاں بہت عجیب ہوتے ہیں ، جب ساتھ ہوتے ہیں تو مشکلات کوسہل کردیتے ہیں ۔ اور جب وہ کچھ کر جاتے ہیں تو ان کے زرین کارناموں کی یاد سے دل کو راحت پہنچتی ہے اور ہمیشہ ان کی تصویر سامنے رہتی ہے اگر آدمی بھلانا بھی چاہے تو بھلا نہیں سکتا۔تاریخ کے سنہرے صفحات میں جونام موتیوں کی طرح جگمگارہے ہیںیعنی پیکر اخلاق، جبل استقامت ، علم کا بحر بے کراں کس خطّہ زمین پر تلاش کیاجائے تو وہ ہے جناب مالک خالد خان صاحب جوکہ خیبر پختونخواہ کے آل پرائمری ٹیچر ایسو سیشن (APTA)کے صدر ہے۔
شاید ان کے والدین کو نام رکھتے وقت یہ احساس بالکل نہیں ہوا ہوگا کہ ان کے گھر میں واقعتاََ ایک خالد نے جنم لیا ہے جو بعد میں ترقی کرتے ہوئے نامور و کامران بن کر میدانوں میں چمکے گا ااور اپنے تابناک وجود سے صرف اپنے گھر کو نہیں بلکہ دوسروں کے گھروں کو بھی روشن کرے گا۔ اس شیر کی آنکھوں کی چمک، خود اعتمادی اور انداز گفتار اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ عام آدمی نہیں بلکہ کسی مقصد کے حصول کیلئے یہ اپنا سب کچھ بیچنے کو تیار ہے۔
جناب مالک خالد خان صاحب بیک وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت کے باوجود ایک اعلیٰ و ارفع سیاست دان ، مدبر، اور نڈر لیڈر بھی ہے، مکمل عبور کے ساتھ جدید علوم سے واقفیت اور سیاسی میدان میں اپنے کارکنوں کے لیڈر ہی نہیں بلکہ استاد کی حیثیت رکھتے ہیں، کونسی صفت ہے جو ان کے اندر موجود نہ ہو۔
جب کاغذ قلم سنبھالا تو خیالات کا تسلسل بنا جو ٹوٹتا ہی نہ تھا اور میں بلا کم و کاست جناب مالک خالد خان صاحب کی شان میں کچھ الجھے سلجھے الفاظ سپرد قلم کرتا رہا، کبھی کبھی اپنی علمی کم مائیگی کی وجہ سے ذہن میں یہ خیال بھی آیا ………کہ
کیسے الفاظ کے سانچے میں ڈھلے گا یہ جمال
سوچتا ہوں کہ ترے حسن کی توہین نہ ہو
اور موصوف کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ ماہر علوم و جدید ہے ۔ آپ کے ظاہری و باطنی کمالات ، علمی خدمات ، معرکہ حق و باطل میں آپ کی مجاہدانہ سر فروشیاں اور علم افروزیاں ہر خاص و عام کو معلوم ہے ۔ اس لحاظ سے اگر موصوف صاحب کو ایک نڈر، بے باک لیڈر کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ اس کے عقیدت مندوں کا جم غفیر ہے ۔ آپ کا مقصد حیات معرکہ حق و باطل کی واضح نشانیوں کو جوت جگانا ہے ۔ ان کی شخصیت کی تمام تر پہلو قید تحریر میں لانا مجھ جیسے طالبعلم کے بس کی بات نہیں تا ہم ان کی زندگی و شخصیت کے نمایاں پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔راقم نے آئندہ سطور میں خالد کے زرین کارناموں کی روشنی میں بڑے محدود علم اور دستیا ب ماحول میں واقعات کا مجموعی جائزہ پیش کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں!
ANPحکومت میں جناب مالک خالد خان صاحب صدر (APTA) نے ایک تحریک چلائی جس میں اساتذہ کی بھلائی کیلئے اور اساتذہ کے سکیل بڑھانے کیلئے جس طرح وہ حکومت سے مطالبہ کئے تھے وہ کسی درجہ کم نہ تھے۔ موصوف کی اوّلین اور نمایاں ترجیح یہ تھی کہ جب تک اساتذہ مطمئن نہیں ہونگے نظام تعلیم ترقی نہیں کر سکتا۔
حکومت جب اساتذہ کا خیال رکھے گا تو وہ سکولوں کی حالت بہتر بنائیں گے اور اطمینان بخش نتائج پیش کریں گے۔ ان کی ترجیح یہ تھی کہ اساتذہ کے سکیل 7سے لیکر 15 تک بڑھائے جائیں۔ لیکن حکومت کی نا اہلی اور انکاری کے باعث صدر(APTA) اساتذہ کی بھلائی کیلئے معاشی سر گرمیوں کی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اپنی روایتی قوت کے ساتھ میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور ایک تاریخی احتجاج کیا۔ اس سنگین صورتحال میں راقم الحروف اتنا ہی کہہ سکتاہے کہ….
ضرورت روشنی کی جس قدر اب بڑھتی جاتی ہے
اندھیرا اور گہرا اور گہرا ہوتا جاتاہے
اس بگڑتی ہوئی ماحول کے باوجود اس دھرنے میں اساتذہ کی بھر پور شرکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ موصوف صاحب کی صرف ایک کال پر کم و بیش 25ہزار اساتذہ اس احتجاج میں شریک ہوگئے ۔ حتیٰ کہ بعض غیر جانبدار صحافیوں نے بھی کہا کہ ( APTA) صوبے کی سطح پر جتنی مظاہرے اور احتجاج کی ہیں یہ بھی ان میں سے ایک تھا۔صوبائی اجلاس میں اس پر تفصیلی غو ر وخوض کے بعد اس کے عملی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا اور بالآخر پرائمری اساتذہ کا سکیل 15تک بڑھانے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔یہی نہیں بلکہ مالک خالد صاحب نے اپنے کارکنوں کو یقین دہانی کہ کہ وہ اب خاموش نہیں ہے وہ شبانہ روز اس کاوشوں میں مصروف ہے کہ وہ اساتذوں کا سکیل 15 سے بھی بڑھاکر 16،17 تک بھی لے جانے کیلئے اپنا تن، من ،دھن قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت تیارہے۔ موصوف صاحب کو اعزازی طور پر(APTA) صدارت کی جو ذمہ داریاں سونپی گئیں انہوں نے احسن طریقے سے نبھائیں اور اپنی کارکنوں کا دل جیت لیا۔ یہ وہ صورتحال ہے جس کا تھوڑا سا نقشہ میں نے آپ حضرات کے سامنے رکھا ہے۔
کتنے شیریں ہے خالد کے رقیب
گالیاں کھا کے بھی ، بے مزہ نہ ہوا
جناب مالک خالد خان صاحب کی سیاست کا یہ انداز بھی قابل ذکر ہے ، اُن کے ہاں جارحانہ پن نہیں، بڑے صبر وتحمل سے سیاست کرتے ہیں۔ مخالفین کی جارحانہ بیان بازی رازداری سے سنبھال رکھتے ہیں اور جب موقع پاتے ہیں جوابی حملہ کرنے میں دیر نہیں کرتے ۔ اپنی بات کو مخمل میں لپیٹ کر پتھر مارتے ہیں، اور بات ختم کرتے ہیں اس انتظا ر کے ساتھ کہ کب کوئی (APTA)پر حملہ کرتی ہے اور مالک خالد خان صاحب کیسے دفاع کرتے ہیں ۔
بہر حال ان اجتماع کے خاتمے کے ساتھ ہی تحریک اپنی منطقی و روایتی انجام کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے لگی ۔ مالک خالد نے احتجاج دیتے ہوئے جو مؤقف اختیار کیا وہ بہت مزے دار اور نا قابل فراموش تھا۔۔مجموعی اعتبارسے (APTA) کا یہ احتجاج نہ صرف چترال ڈسٹرکٹ کیلئے نہایت حوصلہ افزاء تھا بلکہ کلی طور پر صوبے کے کارکن اساتذہ کرام، عہدیداراور (APTA) کے معززّین اس کامیاب اور تاریخی احتجاج کے انعقاد پر دلی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
آخر میں ایک مصرعہ مالک خالد خان صاحب کے نام……….
یہ فخر تو حاصل ہے بھلے ہے یا بُرے ہیں
دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔