تھنکر زفورم‘چترال کی طرف سےسیمینارکا اہتمام

چترال (نمائندہ چترال ایکسپریس)گذشتہ دنوں تھنکرز فورم چترال کی طرف سے چترال کے مقامی ہوٹل میں ایک سمینار کا اہتمام کیا گیا جسمیں ممتاز پورفیسر ڈاکٹر میر بائیز خان نے ’’یوتھ کیلئے کوالٹی ایجوکیشن ‘‘ کے ناگزیر ہونے پر ایک جامع مقالہ پیش کیا۔پھر سوال وجوابات کا سلسلہ چلا جسمیں نوجوان تعلیمیافتہ میل\فیمل سب نے بھرپور حصہ لیا اور جوش وجذبے اور تعلیم وتبدیلی سے اپنی والہانہ دلچسپی و وابستگی کا اظہار کیا۔میڈیم اف ڈسکشن اردواور انگریزی تھا۔پروگرام کا تھیم یہ نکلا کہ لٹریسی کی اصطلاحی انتہائی غلط اور گمراہ کن ہے۔انفارمیشن تعلیم نہیں ہے۔اصل تعلیم،ایجوکیشن،ویژڈم اور تشکیل رویہ ومعاشرتی اخلاقیات ہے۔یہ چیزیں ہماری Curiculumمیں نہیں ہیں۔ان کو ریوکرکے تعلیمی وقومی نصاب کا حصہ بنانا چاہیئے۔معاشی سائنسی ترقی وامن وامان وفلاحی معاشرہ کے قیام کے لئے ’’تعلیمی عمل‘‘بہت ضروری ہے۔اس کے امن وامان سب سے زیادہ ضروری ہے۔جسطرح سے حفاظتی تدابیر آج کل ہورہے ہیں اس سے تعلیم میں تشدد کے عنصر مستقبل میں اور بڑھے گا اور سکول کے ننھے ننھے بچے اور بچیاں تشدد سے مانوس ہوجائیں گے۔فاضل پروفیسر صاحب نے کہا کہ ’’
علم دربرتن زنی مارے بود علم گر بردل زنی یارے بود
علم میں اگر روحانیت،اخلاق،کردارکی بلندی اور معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگی نہ ہو تو وہ نقصان دہ ہے جس کے نتائج ہم آجکل ایک قومی المیے کی صورت میں تجربہ کررہے ہیں۔شرکاء سمینار میں کالج یونیورسٹی پروفیسرز،ضلعی افسران،ڈاکٹرز،سماجی شعبے کے نمائندے ،انٹلیکچویلز،کالج ویونیورسٹیوں کے طلبا\طالبات شامل تھے۔بہت بھاری شرکت تعلیمیافتہ نوجوانوں کی تھی۔فاضل مقرر نے مغربی نظام تعلیم کے منفی پہلوؤں کو بھی اُجاگر کیا۔ہماری Traditionalنظام تعلیم میں بعض تبدیلی،ثقافتی اور روحانی پہلوؤں اور کشرتیت(Pluratistic)ولیوز کے فقدان کا بھی زکر کیا۔’’ایک نقطہ بڑا اہم تھا کہ انسان کی تین بڑی بنیادی ضرورتوں ،نفسیاتی،تہذیبی وعقلی اورروحانی وجدانی‘‘کو تعلیمی نصاب میں سحو دینے کی ضرورت کا احساس نہیں کیا جارہا ہے۔صرف ایک پہلو نمایاں ہے اور وہ ہے Cognitive۔یہ ایک بالاحیوانی خصوصیت کی حامل ہے۔
سمینار کی ابتدائی کلمات کہتے ہوئے پروفیسر شمس النظر فاطمی نے ’’تھنکرز فورم چترال‘‘کے اغراض ومقاصد کا مختصر تعارف پیش کیا۔کہ تھنکرز فورم کا بنیادی مقصد’’مثبت سوچ‘‘Think Postiveاور دوچیزوں پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاسکتا۔اسلام اور پاکستان ہماری دعوت ان دو(اسلام اور پاکستان )کی بہتری کا سوچنا ہے۔سوچ ہو اور وہ بھی تعمیری وتخلیقی سوچ تو اعمال وکردار بھی درست ہوسکتے ہیں۔پوری دنیا اور عالم اسلام کا بنیادی ’’تعمیری وتخلیقی سوچ‘‘کا فقدان ہے۔ہم نے منفی وتخریبی سوچ کو مثبت وتخلیقی سوچ سے الگ کرکے ذی شعور شہریوں میں فکری ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔تاکہ ایک متوازن معاشرہ میں اطمینان کا سانس لیا جاسکے۔تعمیری سوچ والے مواد کوCurriculumکا بنا نا چاہئے۔ہمیں کم فکری کو لگام دینا چاہیئے اور تقسیم درتقسیم کے بجائے ’’اتحاد ویگانگت‘‘کو فروغ دینا چاہیئے ۔شاہ صاحب نے یہ بھی بتایا کہ
’’تھنکرز فورم‘‘ کوئی تنظیم نہیں نہ ہی کسی قسم کی این جی او ہے۔اس کا کوئی دفتر،اکاونٹ،تنظیمی اسڑکچر بھی نہیں۔نہ ہی اس کا کوئی عہدہ دار ہے۔بلکہ یہ ’’حلف الفضول‘‘ کی ایک نئی فورم ہے۔اس میں Like Mindedاعلیٰ تعلیمیافتہ ،باشعور افراد اس میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں اور اُن کا یہ عمل ’’ذہنوں کے لئے ایک کلک‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔جب تک بُرے خیالات اور سماج وامن مخالف تخریبی خیالات کو ذہنوں سے Un-Installنہ کیا جائے تب تک ذہنوں میں اچھے ،تعمیری اور مثبت خیالات کی آبیاری نہیں ہوسکتی۔
پروگرام کوسمٹتے ہوئے پروفیسر ممتاز حسین نے تھنکرز فورم سے متعلق حاضرین وناظرین کو مزید آپ ڈیٹ کیا اور کہا کہ ’’تھنکرز فورم‘‘ ایک عوامی فورم ہے جس کے آپ سب ممبرز ہیں۔مسائل سے چشم پوشی کے بجائے مسائل پر اوپن ڈسکشن زیادہ مناسب ہے جس سے مسائل کے متعدد حل سامنے آئیں گئے۔یہ ایک علمی فورم ہے جو بیلنس اور تعمیری سوچ وفکر کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔