ایک نظر ادھر بھی       

………………….انجنیئر وسیم سجاد …………

میرا تعلق چترال کے ایک دورآفتادہ علاقہ کھوت سے ہے کہنے کو تو یہ ایک پیارا گاؤں ہے اور اسی گاؤں نے بہت سے نامشخصیات اپنے گود سے جنم دے چکا ہے جن میں ڈاکٹرز، انجنیئرز، سیاستدان، مایاناز سوشل ورکرز، اساتزہ اور دیگر شعبون سے تعلق رکھنے والے نامور لوگ شامل ہیں۔سرسبز پہاڑوں کے بیچوں بیچ واقع یے وادی اپنی خوبصورتی اور مہمان نوازی سے بہی پہچانا جاتا ہے اور موجودہ دور میں یہ تیزی سے ترقی کرنے والے علاقوں میں سرفہرست ہے۔ لیکن آج میں آپکی توجہ اس پیارے سے گاؤں کے ایک بہت بڑے مسئلے کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ میرا مطلب کھوت اور اسکے آس پاس کے علاقوں میں موبائل سروس کا آغاز، انٹرنیٹ کا بےمقصد استعمال، موٹرسائیکلوں کی تعداد میں بےانتہا اضافہ، ہماری نوجوانان نسل اور انکا مستقبل۔
کہنے کو تو موبائل سروس کا آغاز اور انٹرنیٹ کا استعمال ہمارے گاؤں اور ضرورت مندوں کے لئے بہت خوشی کا باعث ہے جس سے ہمارے کئ کام گھر بیٹھے بیٹھے ھو جاتے ہیں اور اسی کی بدولت ھم خود کو ترقی یافتہ لوگوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ جسکے لئے ھم Telenor ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس علاقے کے نوجوانوں کی بربادی میں اسکا بھت بڑا کردار ھوگا اور بچی کچی کثر موٹرسائیکل سواری کا رجہان پورا کرے گی۔ کافی عرصے بعد اپنے گاؤں واپس آنے کا شرف حاصل ہوا لیکن یہاں آکر یہاں کے حالات دیکھ کر بھت دکھ ہوا کہ ہماری نوجوان نسل ایک مکمل غلط سمت پر جارہی ہے اور اسی راستے سے نہ تو انکو کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی کسی کی روک ٹوک ان پر کوئی اثر رکھتی ہے۔ میرا ایسے بچوں سے بھی واسطہ پڑا جو سکول کالج چھوڑ کہ مزدوری کرتے ہیں جب ان سے وجہ جاننے کی کوشش کی تو جواب ملا کہ پڑھائی میں کیا رکھا ہے مزدوری کا اچھا ریٹ مل رہا ہے اور انہی پیسوں سے موٹرسائیکل اور موبائل فون خریدنا ہے۔ اور جو اسکول کالج جاتے بھی ہیں ان میں پڑھائی کا کوئی جذبہ نہیں حال یہ ہے کہ بستے کی جگہ موٹرسائیکل اور ھاتھ میں کتابوں کی جگہ موبائل پکڑے اسکول کالج آتے جاتے ہیں اور وژن انکا یہ ہے کہ بڑے ہو کر اس سے جدید موٹرسائیکل اور بڑا والا ٹچ اسکرین موبائل لینا ہے۔ ڈاکٹر انجنیئر پائلٹ کپٹیں اور کسی بڑے عہدے پر فائز افسر کی وژن رکھنے والا شاید ہی کوئی ملے۔  اسکول سے واپس آکر  پڑھائی تو دور کی بات یہ ہوم ورک کرنے سے بھی کتراتے ہیں کیونکہ انکا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ اس وقت انکو موٹرسائیکل پر سیروتفریح کے لئے جانا ہوتا ہے۔ تو یہ اپنا قیمتی وقت پڑھائی  کی بجائے بایک چلانے انڈین ڈرامے فلمیں دیکھنے میں گزارنا پسند فرماتے ہیں۔ اور سونے پہ سہاگہ اب آیا Telenor اب رات کی پڑھائی بھی گئی اب پیکیج لیا اور ساری رات دوستوں سے گپوں میں گزار دیا۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے بس یہاں یہی حال ہے ایک دوسرے کو دیکھا دیکھی ماڈرن بننے کی کمپیٹیشن لگی ہوئی ہے لیکن افسوس صد افسوس یہی کمپیٹیشن تعلیم کی میدان میں ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ اور مجھے ان والدین سے بھی گلہ ہے جو اپنے بچوں کی ہر غیرضروری خواہش پوری کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں سوچتے اگر اپنے بچوں کے لئے موٹرسائیکل موبائل فون اور ایسی بگاڑنے والی چیزیں خریدنے کی بجائےاگر یہی پیسہ انکی تعلیم و تربیت پر لگائیں تو انکا آنے والا کل بہتر ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمارا یہ معاشرہ جس سمت میں اتنی تیزی سے جا رہی ہے اگر یہی حال رہا تو مجھے انکا مستقبل نہایت ہی تاریک نظر آرہا ہے۔اور آنے والے وقت میں تعلیم کے میدان میں ہم کسی بھی ترقیافتہ ممالک کا مقابلہ نہیں کرپائین گے۔اور کل کو یہ ایک نہایت بےکار شہری ثابت ہونگے۔ کوئی بھی کامیابی آسانی سے نہیں ملتی اسکے لئے محنت شرط ہے اور ایک بات دعوے سے کھ سکتا ہوں ڈاکٹر انجنیئر پائلٹ افسر کپٹیں بننا صرف کچھ لوگوں کا میراث نہیں انسان محنت کرے تو کچھ بھی مشکل نہیں۔
اب یہ آپ پر ہے کہ آپ خود کو یا اپنی اولاد کو مستقبل میں کہاں دیکھنا پسند کروگے۔ ایک ڈاکٹر انجنیئر پائلٹ کپٹیں افسر کی روپ میں یا اجرت پر کام کرنے والے مزدور یا پھر ایک ناکارہ شھری کی روپ میں۔ ایک بیکار کی زندگی یا معاشرے میں عزت و مقام کی زندگی۔ فیصلہ آپکے ھاتھ میں۔
کچھ بننا ہے تو اپنا آج بدل ڈالو۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔