فرض شناسی علم کا محتاج نہیں

      …… تحریر :فرازخان فراز……

بات حقیقت ہےاور یہ قول بھی مشہور ہےکہ علم عزازیل یعنی ابلیس کےپاس بھی تھا مگر ادب سے محروم تھا  اور اس وجہ سے ہی رندہ  ہونا  پڑا ۔ آج مجھے جس  عنوان پر کچھ  لکھنے کا خیال آیا  یہ صرف خیالی دنیا اورخوشامد ہرگز  نہیں بلکہ حقیقت ہے اور ہر لفظ اس انسان کی حقیقت کی عکاسی کرنے پر مجبور ہیں۔یہ بات  درست بھی  ہےاورانسان کی فطرت میں بھی شامل ہے کہ انسان جوبھی کرتاہے اپنے فائدے کی خاطر کرتا ہے اور مطلب کا عمل دخل ضرورشامل ہوتاہے ۔اگر دیکھا جائے تو لکھنےوالوں کی دنیا بھی مطلب سے خالی نہیں    مشہور مورخیں احرام مصر کو بادشاہ مصر فرعون سے منسوب کرکےبڑھا چڑھا کر تحریر میں لاکر عظیم مورخ ہونے کا داد تو حاصل کرچکے مگرصد افسوس اس اصلیت کو سامنے لانے سے قاصر رہے ہیں کیونکہ احرام مصر کو بنانے والا  فرعون  نہیں بلکہ ایک عظیم کاریگر مگرغریب  شخص تھااس کےکاریگری کے بارے میں لکھنےوالے خاموش کیوں کیونکہ وہ  تھاغریب ۔ ساغر صدیقی نے  اس نشیب وفراز کے بارے میں کیا خوب کہا ہے۔    {{میری غربت نے اڑا رکھا ہے میرے فن کا مزاق  تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں}}۔مجھے  جس انسان  کے حالات لکھنے کا خیال وہ تو بظاہر سادہ لوح انسان ہے مگر  فرض شناسی میں اپنی مثال آپ ہے  آپ کی جنم بومی۱۹۷۹ء کو   لٹکوہ  کے گرچشمہ پرابیک میں ہوئی ۔ پرائمری تعلیم گورنمنٹ سکول  پرابیک  میں حاصل کی تعلیم حاصل کرنے کا زیادہ شوق تھا  مگر حالات  کے  ہاتھوں مجبور ہوکر  نوکری کی طرف راغب ہوگئے۔ملازمت کا باقاعدہ آغاز ۱۹۹۵ء کو چترال سکاوٹ سے سپاہی کی حیثیت سے کیا اور اٹھارہ سال ملازمت کی  ۔دوران ملازمت  فرض شناسی کے کرتب دیکھائے اور فوجی افسران کے دل جیتے رہے اور انعام  لیتے رہے ۔آپ کے کاموں  کوسراہنے والوں میں ایک نام ڈاکٹرمیجرعاصم تھا جو بعد  میں کرنل کے عہدے پر فائز ہوئے۔وہ اکثر محازوں میں  ڈیوٹی اس لئے انجام دیتے رہے اور یہ خواہش تھی کہ شہادت کا جام پی لوں اور اللہ کی رضا حاصل کروں مگر وہ موقع ہاتھ نہ  آیا اور ملازمت کے ایام ختم  ہو گئے۔واپس گھر آیا اور دوبارہ ملازمت  کا آغاز بحیثیت ڈرائیور  لینگللنڈ سکول چترال سے کیا ،اسکے بعدآغاخان ایجوکیشن سروس چترال میں بحیثیت ڈرائیور  ڈیوٹی انجام  دے رہا ہے۔  میرا تعلق سرور بھائی  کےساتھ تقریبا ایک سال  سے ہے اور اس کی سرگرمیاںروز زوزمیر ے مشاہدے  میں آتے جاتے ہیں اور جب بھی اس کو  دیکھتا ہوں تو دل خوش ہوجاتا ہے کیونکہ وہ  اپنے فرض  منصبی  کے علاوہ کسی نہ  کسی کام میں مصروف   نظر آتا ہے۔سکول  کے چمن  میں باغبان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ یہ  چمن ہم سب  کاہے  دل لگا کر کام کرنا کم چوری نہ کرنا  ۔کلاس فور دوستوں کو احساس دلاتا ہےکہ سکول کے الگ تقاضے ہوتے ہیں ان  اصولوں پر سمجھوتا کرنا سیکھو اور ساتھ ساتھ اپنے ہم پیشوں کو اخلاقی درس عملی طریقے سے دیتا ہے  ۔میں نے  پوچھا  تو کہا کہ  فرض شناسی  کادرس اپنے ناخواندہ مگر باشعور باپ سے سیکھاہے  ۔سرورالدین کی طرح  تابعدار،بے داغ اور فرض شناس لوگ دنیا  میں بہت کم دیکھنےاورلکھنے کو ملتے ہیں، اللہ آپ کی عمر کو دراز رکھے اوراس جذبے کو تاحیات  برقرار رکھے۔            ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے   بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

 

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔