پس و پیش معاشرتی اور قانونی چھتری کے نیچے

………..تحریر: اے ایم خان چرون،چترال……

یہ ایک المیہ توہے کہ بات نہ کرتے ہو ئے بھی اِتنی احتیاط جتنی کرتے وقت کرنا چاہیے۔ بعض لوگ اِس کا ایک آساں حل یہ بتاتے ہیں کہ بات ہی نہ کیا جائے؟ اب دور کی نوعیت اِسطرح ہوئی ہے کہ جب بات کرنے کی نوبت آجائے اور بات نہ کی جائے تو اِنساں کو مظلوم سے ملزم ہونے میں بہت کم وقت لگتا ہے۔ اور اب بات کیا جائے تو بھی الزام اور نہ کیا جائے تو ملزم۔
پاکستان کے لوگ اِس بات پر تو بہت خوش ہو چُکے ہونگے جب اقوام متحدہ کے کروائے گئے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے لوگ ہندوستان کے لوگوں سے بہت خوش لوگ قرار دئیے گئے۔ رپور ٹ کے مطابق 157 ممالک کا جائزہ لیا گیا جس میں پاکستان 92 نمبر پر اور انڈیا 118 پر۔ یہ بھی یاد رہے کہ پچھلے سال پاکستان 81 اور انڈیا 117 نمبر پر۔ ہماری خوشی زیادہ اُس وقت ہوگی جب اِنڈیا کے لوگ ہم سے زیادہ افسردہ ہوں ، کیونکہ ہماری پالیسی اورسوچ ہندوستان پر مرکوز ہوتی ہے۔ اور یہاں ہم صرف اُس سوچ کی خاطر رپورٹ کے برعکس بھی بول سکتے ہیں۔اِ ن دِنوںیہاں الزام تراشی ، جرم اور مجرم کی جتنی بات ہو تی ہے وہ اور کہیں شاید نہیں ہوتا۔ شاہد افریدی کا انڈیا کے حوالے سے ایک بیان پر اُس کے خلاف غداری کا الزام لگانا،جس طرح چند ہفتے پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے لیڈر پر بغاوت کا الزام لگایا گیاتھا ،قابل غور ہے۔گوکہ آئین کے آرٹیکل چھ کے کلاز ایک اور دو کو اگرایک عام آدمی بھی پڑھ لے تو اُسے سمجھ آسکتا ہے کہ آرٹیکل چھ کے تحت کس قسم اور نوعیت کا جرم غداری کے زمرے میں آتا ہے ، صرف اِس میں ایک ٹیکنیکل بات جوکہ عدالت کے دائر ہ اختیار کے حوالے سے ہے ۔
جرم اور مجرم کا اٹوٹ رشتہ یہاں تو نظر آتا ہے ۔ کبھی جرم اور کبھی مجرم پر بات خود پر لیبل لگوانے کا باعث بن جاتاہے۔ ہمارے معاشرے میں لیبل ہر وہ فرد لگا تاہے جو مسلے کو اپنی حد تک سمجھ لیتا ہے ، بجائے سمجھ کی حد تک ۔ لیبل اگر ہم لگاتے ہیں تو سزا بھی،گوکہ قانونی نقطہ نگاہ سے نظیر تو عدالت بنا سکتی ہے بجائے ایک فرد ؟
ہم نے یہ پڑھا تھا کہ جس ملک میں قانون ہوگی ،وہاں انصاف ہوگا۔ یہ نہیں سناُ تھا کہ ہر کسی کا اپنا قانوں اور عدالت، اور اپنے اپنے اِنصاف اور الزام لگانے کا طریقہ۔ اگر ہم زیادہ تعلیم یافتہ ہوگئے ہیں تو ہمار ا لٹریسی ریٹ 60 فیصد سے بھی کم ہے۔ قانوں کی حکمرانی وقت کی ضرورت ہے کہ ہرشہری کو یہ بات واضح ہوجائے اور یقین ہو جائے کہ جو بھی قانوں کو توڑتا ہے یا اپنے ہاتھ میں لیتا ہے سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ جو قانون وزیر ،مشیر و امیر کیلئے ہے وہی قانون ایک عام شہری کیلئے ہے ، اور ایک عام شہری کے حقوق کے تحفظ کیلئے حکومت ہمہ تن تیار رہتی ہے وہی قانون ہے۔جس ملک میں ریاستی وسائل اور ادارے حکمران طبقے کے تحفظ اور خدمت کیلئے مامور ہوتے ہیں، وہاں عوام کی حفاظت ، ترقی اور خدمت کیلئے ریاستی عملہ اور وسائل کی کمی ہمیشہ رہا کرتی ہے ۔ گزشتہ روز میرے ا یونیورسٹی کے ایک اُستادنے معاشرتی میل جول کے سائٹ فیس بک میں کینیڈا کے وزیراعظم اور اُسکے فیملی کا تصویر شیئر کی تو مجھے بھی یہ عجیب لگا جس میں والدین اپنے تین بچوں کو لیکر بازار سے جارہے تھے ،نہ کوئی پروٹوکول، نہ سیکورٹی اور نہ غیرضروری عوامی شوروغل جوکہ ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ اور برطانیہ کے وزیر اعظم کا وہ خبر مجھے اب بھی یا د ہے کہ وہ ایک یوٹیلٹی سٹور میں آکر اپنے لائن میں کھڑا ہوکر، اپنے باری میں سودا سلف لیکر واپس چلا جاتا ہے۔ اِ ن ممالک میں قانون میں exception کا سوال ختم ہوجاتا ہے، اورقانو ں کی قدر کی جاتی ہے ، جس میں سب سے زیادہ قانون پرایک عام آدمی کا اعتماد بڑھ جاتاہے کہ ایک چیز ہے جو اِنصاف کی ضمانت ہے!
ایسا نہ ہو کہ جس طرح شاہد افریدی نے انڈیا کی تعریف کیا کردی ،کہ بغاوت کا الزام لگانے کیلئے بندہ سامنے آگیا، اور جب برطانیہ اور کینیڈا کی مثال دی تو ایسا ہوکہ جو نہیں ہونا چاہیے ۔ حسین حقانی جب اپنے نئے پاک امریکہ خارجہ پالیسی پر Magnificent delusion نامی کتا ب کے حوالے سے ایک تقریب میں سوالات کا جواب دے رہا تھا تو وہاں ایک خاتون کو اُسکا جواب غیرمعمولی تھا۔خاتوں غالباً ڈاکٹر تھی،اُس نے حقانی سے سوال کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اپنے کتاب میں پاکستان سے متعلق بہت غلط چیزیں لکھے ہیں؟ بحیثیت پاکستانی یہ چیزیں تمھیں کتاب میں نہیں لکھنا چاہیے تھا اور اب دُنیا میں لوگ پاکستان کے بارے میں کیا سوچیں گے ؟ اگر آپ کو کچھ کہنا تھا تو ہمارے سامنے یہاں اور پاکستاں میں کہنا چاہیے تھا؟ اِس مفلسانہ سوال کے جواب میں حسین حقانی کا جواب نہایت موزوں اور سلیس تھا ۔حسین حقانی نے کہا کہ بہن صاحبہ ! میں نے اپنا کتاب معتبر ثبوتوں اور حوالہ جات کی بنیاد پہ لکھا ہے، جسے آپ نے خود نہیں پڑھا ہے۔میں نے کتا ب میں پاکستان کے خارجہ پالیسی میں یہ خامیاں اور کمی ہے ،اور پاک امریکہ تعلقات غلط فہمی کے بنیاد پر قائم ہے ۔ ثبوت اور حوالہ جات کی بنیاد پر صحیح بات کرنا غلط ہے تو آپ خود بتائیں۔ حقانی نے خاتوں کو مخاطب کرکے مزید کہا کہ پاکستاں میں کچھ لوگ کسمپرسی، اور افواہ پھیلاتے ہیں ، ہم اُ ن پر یقین کرتے ہیں لیکں حقائق پرمبنی باتوں پر نہیں ۔ اور ہم کب تک اپنا خامی چھپاتے رہیں گے ، اور لوگوں کو اندھیرے میں رکھیں گے۔ ہمارا یہ خیال کہ دُنیا ہمارے بارے میں کچھہ نہیں جانتا یہ ہماری کم علمی اور غلط فہمی ہے! اور اگر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ میں نے کچھ غلط لکھا ہے وہ بھی سائنسی طریقے سے کتا ب لکھ کر میرے اُٹھائے ہوئے سوالوں کا جواب دے دے، یہ ایک مہذ ب طریقہ ہے۔چند دِن پہلے پنجاب کے سابق گورنر کے قتل کے الزام پر قادری کا پھانسی ہوا ،جس کے ردعمل میں فیس بک میں توہین رسالت کے حوالے سے اُرد و اور انگریزی میں غیر ضروری، ناپختہ، غلط، اور لوگوں سے منسلک غیرمصدقہ پوسٹس شیئر ہوئے ، اور تعلیم یا فتہ حضرات کے پوسٹس دیکھ اور پڑھ کر حیرت ہوئی کہ وہ ایسا کیوں سوچتے اور کہتے ہیں ، جس کا زیادہ نقصان ہوتاہے ملک اور قوم کو، اور اُس سوچ کو جس کا فائدہ اُن لوگوں کو ہوسکتا ہے جس سے پاکستان کے اندر لوگوں کو مزید طبقات میں تقسیم کو مزید واضح اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں ۔
فزکس کے ایک اُستادنے فزکس پڑھانے کے بجائے عدالت کے فیصلے کے ردعمل پر سوشل میڈیا میں پوسٹس کی یلغارسے کردی۔اب ریاست کے اندر ہر ایک شہری (سوائے فارن مشن کے اہلکار جن پر بین الاقوامی قانون کا نفاذ ہوتا ہے ) ریاستی قانون کا تابع ہوتاہے ، اور وہ کسی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اُسکی سزا کیلئے ایک قانوں موجود ہے۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق کسی کو حاصل نہیں اور تشریح کرنے کا حق صرف عدلیہ کو۔ اورجو یہ کوشش کرتا ہے وہ سزا کا مستحق ہوتاہے۔ اگر کسی کے ساتھ نااِنصافی ہوتی ہے، وہ عدالت سے اِنصاف مانگ سکتا ہے۔ ہاں اگر کسی ملک میں قانون اپنی روح کے مطابق اور یکسان نافذ ہو نہیں رہا تو یہ قانون کی غلطی نہیں، یہ ایک ادارہ یا ایک فرد کی غلطی ہوسکتی ہے ۔ اور اُس غلطی کی سزا کیلئے بھی قانوں موجود ہے اُسے بھی قانون کے مطابق سزا ہوسکتی ہے ۔ قانون کی حکمرانی کیلئے ذاتی حیثیت میں اجتماعی فائدے کیلئے قانونی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اکثریت قانوں کے چھتری کے نیچے آسکے ، اور نا انصافی سے بچا جاسکے۔معاشرے ا ور میڈیا میں لوگوں میں احساس محرومی ، نفرت اور شدت کو پھیلانے سے نقصاں کے بغیر کچھہ نہیں ہوتا،ا ور حقیقت بتاناِ اصلاح کی طرف ایک قدم ،اور عوام کومعاشرتی اور قانونی چھتری کے نیچے لانے میں مدومعاون بن سکتاہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔