ریشن بجلی گھر کی سیلاب بردگی کے بعد سے اب تک ڈیڑھ لاکھ کی آبادی بجلی کے بغیراذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور

چترال (نمائندہ چترال ایکسپریس)اپر چترال کے ریشن میں پیڈو کے پن بجلی گھر سے مستفید ہونے والے دس یونین کونسلوں میں بجلی کے صارفین نے بجلی گھر کی بحالی پر صوبائی حکومت کی گزشتہ ایک سال سے مسلسل خاموشی پر شدید احتجاجی پروگرام چلانے کا اعلان کرتے ہوئے 15مئی کو ریشن کے مقام پر ایک جلسہ عام منعقد کرکے لائحہ عمل طے کر نے کا فیصلہ کردیا ۔ جمعہ کے روز چترال پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ممبر ضلع کونسل سابق ایم پی اے مولانا عبدالرحمن، ممبران تحصیل کونسل عبدالقیوم خان، محمد شریف خان ، ویلج کونسل ناظم عبدالرحمن لال، سماجی و سیاسی شخصیات مولانا اخونزادہ رحمت اللہ، محمد سلیم شیروانی، شریف حسین اور دوسروں نے کہاکہ ایک سال قبل ریشن بجلی گھر کی سیلاب بردگی کے بعد سے اب تک ڈیڑھ لاکھ کی آبادی بجلی کے بغیراذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبورہیں لیکن بار بار مطالبات کے باوجود صوبائی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی اور نہ ہی علاقے کے منتخب نمائندوں نے اس پر توجہ دی۔ انہوں نے کہاکہ 15۔ مئی کو اتوار کے دن ریشن کے مقام پر جلسہ عام میں دنین یونین کونسل کے راغ گاؤں سے لے کر تریچ، تورکھو اور مستوج تک ہزاروں لوگ جمع ہوکر حتمی فیصلہ کریں گے کیونکہ حکومت اور ممبران اسمبلی سے وہ مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ بجلی گھر کی بحالی میں ایک ارب روپے سے ذیادہ کا خرچ نہیں اٹھے گالیکن صوبائی حکومت کی غیر دانشمندی کا یہ عالم ہے کہ اس علاقے میں سولر سسٹم کی تقسیم پر 97کروڑ روپے کا خطیررقم خرچ کیا لیکن اس سے صرف دس فیصد گھرانے مستفید ہوسکے اور 90فیصد محروم رہ گئے جس سے علاقے میں مزید بے چینی پھیل گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ متاثرہ بجلی صارفین اب فی گھرانہ چندہ کشی کرکے ریشن بجلی گھر کو خود بحال کرنے پر بھی غور کررہے ہیں جس پر اگلے اتوار کے جلسے میں فیصلہ ہوگا۔ بجلی صارفین کے نمائندوں نے کہاکہ بجلی کی گزشتہ ایک سال سے بندش اور حکومت کی مجرما نہ غفلت کی وجہ سے علاقے کے عوام اب انتہائی تنگ آگئے ہیں اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔