ڈپٹی کمشنر چترال کو خراج تحسین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورولی شاہ انور

گاؤں گل آباد کجو بالا دریائے مستوج کے کنارے 20گھرانوں پر مشتمل ایک نو آباد اور خوبصورت گاؤں ہے۔بد قسمتی سے یہ خوبصورت گاؤں دریا کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ہر سال دریا کی طعیانی اور سیلابی ریلے کی نظر ہو جاتی ہے۔ہر سال دریا کا پانی گاؤں کے اندر داخل ہو کر لاکھوں روپے کا نقصان پہنچا کر گزر جا تا ہے۔چترال کے ایم ۔این ۔اے صاحب ، ایم ۔پی ۔ایز صاحبان اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ذمہ داران کو بار بار درخواست دینے کے باؤجود بھی گاؤں اور گاؤں والوں کی طرف نظر کرم نہیں کیا جاتا۔اسی طرح سیلاب اور دریا کی طعیانی ہر سال اپنا کام کرکے گزر جاتا ہے۔ہمارے قومی نمائندے ہر سال دریا کی طعیانی اور سیلاب کے دوران علاقے میں تشریف لاکر جھوٹی تسلیان دے کر اور سبز باغ دیکھاتے ہوئے غائب ہو جاتے ہیں۔اور جب ان کے پاس جاکر کہا جاتا ہے کہ جناب والا ہمارا گاؤں ڈوب رہا ہے۔کچھ کریں تو بڑی مختصر جواب مل رہا ہے کہ،،ڈوبنے دو،،لیکن میں تحریر ھٰذا کے زریعے ان کو بتا دینا چاہتا ہوں۔کہ ہاں ابھی تک اس گاؤں سے تین افرد ڈوب چکے ہیں۔اور کتنوں کو ڈبونا چاہتے ہیں۔
گزشتہ سال رمضان کے آخری دنوں جبکہ چترال کا نصف حصہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا نشانہ بن گیا۔جہاں اربوں کا نقصان ہوا اورہم اپنے کئی پیاروں سے بچھڑ گئے۔یہاں مکینان گل آباد بھی گاؤں کے مسجد کے لوٹ سپیکر پر رات بارہ بجے تھانہ کوغذی کے پولیس اہلکاروں کی خطرے کی اطلاع دینے اور گاؤں خالی کرنے کی نوٹس پر تین مرتبہ رات کی تاریکی میں اپنے گاؤں اور گھروں پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے پرنم انکھوں کے ساتھ بچوں کو خواب مستی سے زبردستی اٹھاتے ہوئے محفوظ علاقے کی طرف ہجرت کرتے رہے۔لیکن اللہ کا شکر ۔کہ گاؤں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔البتہ سیلابی ریلہ گاؤں کے اندر داخل ہو کر گاؤں کی خوبصورت ترین جامع مسجد ،مکانات اور اراضیات کو جزوی نقصان پہنچاتا ہو ا گزر گیا۔ہمارے T.Vوالے ،ہمارے اخباری روپورٹراور ہمارے سیاسی رہنما آئے، انٹرویو لئے،وہی جھوٹی وعدہ اور تسلیاں دیتے ہوئے چلے گئے۔لیکن تا حال ہمارے سیاسی رہنماؤں کو اس گاؤں کا خیال نہ آیا ،نہ نقصانات کا ازالہ کیا گیا، اور نہ آنے والے خطرات سے گاؤں کو بچانے کے لئے کوئی معقول انتظام کیا گیا۔
اس دفعہ بھی سیلاب گزر گیا دریا کی طعیانی ختم ہو گئی۔لیکن گاؤں کے سامنے ایک ہزار فٹ لمبا اور پانچ فٹ انچا سیلابی پتھروں کا جم عفیر جمع کرکے اور آنے والی سالوں کے لئے گاؤں کو خطرے میں ڈال کر سیلاب ختم ہوا۔گاؤں کے مد مقابل پتھروں کے دیوار کو دیکھتے ہوئے گاؤں والوں کا سکون ختم ہوا۔کیونکہ اب کی بار دریا کی طعیانی کا اور موجوں کا مکمل رخ گاؤں کی طرف ہو گیا تھا،اھلیاں علااقہ اس قدرتی دیوار کو وہاں سے ہٹا کر گاؤں کو محفوظ بنانے ،اور آنے والی تباہی اور خطرے سے گاؤں کو بچانے کے لئے جناب ڈی۔ایس۔پی طارق کریم صاحب کی ہمراہ ڈپٹی کمشنر چترال سے ملاقات کرکے سیلابی ریلے سے بننے والی ملبے کو وہاں سے ہٹانے کی درخواست کی۔چترال کابہادر اور عوام دوست ڈپٹی کمشنر صاحب نے فوری طور پر تحصیلدار صاحب کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔اور تحصیلدار صاحب نے بھی اپنی رپورٹ میں فوری طور پر اس ملبے کو وہاں سے ہٹا کر گاؤں کو محفوظ بنانے کی سفارش کی۔نائب تحصیلدار صاحب کی رپورٹ پر جناب ڈپٹی کمشنر صاحب نے ایکسن صاحب محکمہ ایریگیشن کو ہدایات دی۔کہ فوری طور پر ایکسکیویٹر کی مدد سے ملبے کو ہٹا کر آنے والی ممکنہ خطرے سے گاؤں کو بچایا جائے۔پچیس گھنٹہ مسلسل کام کرتے ہوئے ملبے کو ڈپٹی کمشنر صاحب کی ہدایت پر وہاں سے ہٹا کر گاؤں کو وقتی طور پر محفوظ بنایا گیا۔اس لئے گاؤں کے چھوٹے بڑے اپنے محسن ڈپٹی کمشنر صاحب کو ہنگامی طور پر کام کروا کر ملبے کو ہٹانے اور دریا ئی موجوں کا رخ تبدیل کروانے پردل کی گہرائی سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ساتھ ہی جناب ایکسین صاحب ایریگیشن اور تحصیلدار صاحب اور اس کی ٹیم کا بھی مشکور ہیں۔کہ انہوں نے ڈپٹی کمشنر صاحب کی ہدایت پر فوری کاروائی عمل میں لاتے ہوئے کسی بھی ممکنہ خطرے سے گاؤں کو وقتی طور پر بچانے میں اہم کردار آدا کئے۔
چترال ایکسپریس کے موقر ا خبار کی توسط سے ایک مرتبہ پھر جناب ڈپٹی کمشنر صاحب چترال ،ایم ۔این ۔اے جناب شہزادہ افتخار الدین صاحب ،ایم ۔پی ۔اے جناب سلیم خان صاحب اور ڈسٹرکٹ ناظم صاحب کی خدمت میں درخواست گزار ہیں۔کہ گاؤں کو مکمل طور پر سیلابی ریلہ اور دریا کی طعیانی سے بچانے کے لئے چار جگہوں میں مظبوط حفاظتی بند بناکر گاؤں کو آئیندہ کے لئے محفوظ بنانے کی کوشش کی جائے۔تاکہ اس خوبصورت گاؤں کو تباہی سے بچایا جا سکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔