فکرو خیال ۔…….. فیس بُک اور اس کا استعمال ۔ ۔

 ………۔۔۔۔ فرہاد خان

ہارڈ ورڈ یونیورسٹی کے طالب علم مارک زکربرگ اور اس کے ہم جماعت ساتھیوں کے زہنی اختراع اور کمال کا نتیجہ فیس بُک کی شکل میں 2004 میں وجود میں آیا ، ابتدا میں یہ پروگرام ہارڈورڈ یونیورسٹی کے طلباو طالبات تک محدود رکھا گیا اور بعد میں اسے بوسٹن کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی متعارف کرایا گیااور پھر اسے عام صارف تک رسائی دی گئی جس کے بعد آج فیس بُک سوشل میڈیا کی دنیا کا سب سے بڑا اور مشہور و معروف نیٹ ورک بن چکا ہے جس کے زریعے دنیا کے اربو ن انساں فیس بُک دوستی کی شکل میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ۔ ایک معروف ادارے کی رپورٹ کے مطابق جون 2016 تک 1.7 بلین لوگ ماہانہ فیس بک استعمال کرتے ہیں یہ تعداد فیس بُک کی اُن active users کی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر فیس بُک استعمال کرتے ہیں ۔ اس اعداد و شمار کی بنیاد پر فیس بُک سوشل میڈیا کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نیٹ ورک ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسرے سوشل نیٹ ورکس جن میں ٹوئیٹر ، واٹس اپ ، وائبر اور انسٹراگرام کے صارفیں کی تعداد بہت کم ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق ٹوئیٹر کے کل صارفین کی تعداد 284 ملین، واٹس ایپ کے 500 ملین اور انسٹراگرام کے صارفین کی تعداد تقریبا 200 ملین بتائی جاتی ہے ۔ فیس بُک اپنے وسیع و عریض نیٹ ورک کی وجہ سے آج کل دنیا کے ہر کونے میں معروف و مقبول سوشل سائٹ ہے جس کے صارفین میں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ۔ ملک کے دوسرے علاقون کی طرح چترال میں بھی فیس بُک کا استعمال عام ہوچکا ہے ، الیکٹرانک میڈیا کی انقلاب کے بعد موبائل کمپنیوں کی موجودگی اور خاص کر مختلف کمپنیوں کے طرح طرح کے نئے موبائل برانڈ کی امد نے عام صارف کی سوشل میڈیا تک رسائی کو انتہائی آسان بنا دیا ہے ۔ چترال کے اکثر علاقوں میں موبائل کمپنیوں کی امد کے ساتھ ہی چترال کے نوجوانوں اور کم عمر بچوں کی بڑی تعداد روزانہ کی بنیاد پر فیس بُک جوائن کررہے ہیں ۔ ان میں سے اکثر کو فیس بک استعمال کرنے دوسرے دوستوں سے تعلق جوڑنے اور فیس بک کے دیگر اپشنز options استعمال کرنے کی ابتدائی تربیت نہ ہونے اور عدم معلومات کی بنا پر اس سوشل میڈیا کو تقریبا غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور اکثریت کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا ۔ اس سلسلے میں چند احطیاطی تدابیر سے اسے بہترا ور مفید طریقے سے استعمال کیا جاسکتاہے ۔ چونکہ فیس بُک عام صارف کی دسترس میں ہے اس لئے اس میں بے شمار اور مختلف قسم کے پوسٹ ، اڈیو، ویڈیو اور تصاویر کی صورت میں لمحہ بہ لمحہ نمودار ہوتے رہتے ہیں ۔ جہان مختلف کمپنیا ں اپنے اپنے پروڈکٹس کو بھیجنے کے لئے اشتھار دیتے ہیں وہیں منفی عناصر اپنے اپنے خاص مشن کے تحت عام صارفین کے درمیاں وارد ہوتے ہیں اور مختلف طریقوں سے عام صارف کو متاثر کرتے ہیں ۔ عام صارفین کو اس سلسلے میں چند انتہائی اہم باتوں کو زہن نشین کرلینی چاہئے تاکہ غیر دانستہ طور پر کسی بھی غلطی سے بچا جاسکے ۔
سب سے پہلی اور ضروری بات یہ ہے ایسے تمام غیر اخلاقی تصاویر چاہے وہ کسی طرح کی بھی ہو مثلا فحش تصاویر، کسی مذہبی اور سیاسی رہنماوں کی تصاویر، حادثات کی تصاویر جس میں زخمی ہونے والے لوگوں اور خاص کرکے بچون کی تصاویر سے لیکر دیگر پوسٹ کو کبھی بھی لائک LIKE کرنے سے گریز کریں ۔ کیونکہ فیس بک کی وسیع و عریض نیٹ ورک کی وجہ سے اپ کی لائک کردہ مواد آُ پ کے اُن دوستوں تک بھی پہنچ جاتی ہے جو اپ کے نظریات اور آپ کے جذبات سے مختلف آرا رکھتے ہوں اس سے تعصب اور رشتوں میں دراڑ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ حادثاتی تصاویر کی وجہ سے دوسرے کے زہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ایسے پیغامات کو نظرانداز کریں جس میں کسی بچے کی بیماری کے نام پر پیسے طلب کئے جارہے ہوں یا کسی مخصوص کمپنی کے لئے زیادہ سے زیادہ likes حاصل کرنے کے لئے اپ کو کسی چیز دینے کا لالچ دیا جارہا ہو ، کیونکہ اس طریقے سے یہ لوگ اپنے اپنے مفادات کے لئے آپ لوگوں کو اسانی سے استعمال کرسکتے ہیں ۔ ایک پُرانا مشہور مقولہ ہے کہ “پہلے تولو، بعد میں بولو اب فیس بُک پر یہ مقولہ اس طرح کا ہوگا کہ “لائک کرنے اور شئیر کرنے سے پہلے سو بار سوچو” کہ جس چیز کو لائک یا شئر کیا جارہا ہے وہ مناسب ہے یا نہیں ۔؟۔ دوسری سب سے اہم بات ہے اور وہ یہ کہ فیس بُک پر شائع شدہ مواد کو سچ مت مانیں کیونکہ یہاں کوئی کچھ بھی لکھ کر پوسٹ کرسکتا ہے ، کسی بھی قسم کی فوٹو کو ڈیزائن دیکر اور فوٹوشاپ کی مدد سے ردوبدل کرکے پوسٹ کیا جاسکتا ہے ، سماجی ، معاشرتی ، تعلیمی اور صحت سے متعلق کوئی بھی خبر یا تصویر کو بغیر تحقیق کئے کبھی بھی سچ مت مانیں خصوصا صحت کے حوالے سے پوسٹ کئے جانے والے معلومات پر یقین کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے ضرور پوچھیں ۔ عموما یہ منفی خبریں پھیلانے والے گروہ کسی بھی خبر یا معلومات کے ساتھ کسی بھی فوٹو کو لگا کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور اپنے اپنے مخصوص ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تیسری ضروری بات یہ ہے کہ کبھی بھی اپنے فیملی ممبران کے تصاویر اپنے فیس بُک پر مت لگائیں کیونکہ ان تصاویر کا غلط استعمال آپ اور آپ کی فیملی کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے ۔ اپنے زاتی تصاویر ہمیشہ فیس بک سے دور رکھیں اور اگر فیس بک پر رکھنا چاہتے ہیں تو فیس بک پروفائل setting میں only me کا اپشن استعمال کریں تاکہ اپ کے پرسنل تصاویر کوئی دوسرے لوگ نہ دیکھ سکیں ۔ غیر ضروری طور پر کسی دوسرے دوست کو کوئی بھی مواد teg مت کریں کیونکہ آپ کے ان مواد کو آ پ کے دوست کے دیگر دوست بھی دیکھ سکتے ہیں اور اگر وہ چاہیں تو آپ کے تصاویر اور دیگر اہم معلومات کو وہ غلط طریقے سے استعمال کرسکتے ہیں ۔ ان درج بالا اہم امور کے علاوہ ایک اور اہم کا م یہ بھی کریں کہ ایسے تمام دوستوں کو ان فرینڈ کریں جو فیس بک انتہائی غلط چیزیں لائک اور شیئر کرتے ہیں سب سے اہم بات کہ لائک کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ اس سے کسی کے جذبات تو مجروح نہیں ہورہے ، کوئی آپ کے لائک کی وجہ سے آ پ سے دور تو نہیں ہورہا سب کی جذبات و احساسات کا خیال رکھیں ۔ فیس بُک پر اپنا لوکیشن off رکھیں اور اس وقت اپ کہاں اور کیا کررہے ہیں یہ سب لکھنے اور بتانے سے گریز کریں تاکہ کسی بھی نقصان سے بچا جاسکے ۔شر پسند عناصر اپ کی Location کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرسکتے ہیں ۔ اور اخری بات یہ کہ کسی کو بھی فرینڈ ایڈ کرتے یا فرینڈ ریکوسٹ ارسال کرنے سے پہلے اس کا پروفائل ضرور چیک کریں ، بغیر جان پہچاں کے کسی اجنبی کو فریڈ ریکوسٹ بھیجے اور ریکوسٹ قبول کرنے میں محتاط رہیں ۔ یاد رکھیں فیس بُک پر کبھی بھی کسی ایسے گروپ یا Page کو لائیک مت کریں جس سے انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی بُو اتی ہو ، اسی طرح مذہبی بنیاد پر کوئی بھی comment دینے سے گریز کریں ۔ انتہائی اہم اور زاتی پیغامات کو کسی بھی دوست کے comment section میں مت لکھیں بلکہ اُس کے Message box میں جاکر اُسے Message کریں تاکہ زاتی نوعیت کی معلومات صرف اور صرف آپ اور آپ کے دوست تک محدود رہیں ۔ فیس بُک بیش بہا معلومات کا بھی بہتریں زریعہ ہے لہذا اس کے زریعے اپنے علم اور معلومات کو بڑھائیں ، اچھے معلومات اپنے دوستوں تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ فیس بُک میں رواداری، اخلاق اور ایمانداری سے اپنے دوستوں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کریں جدید ٹیکنالوجی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھنے کی کوشش کریں۔ احتیاط کریں سائبر کرائم بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جاچکا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا کی بھی کڑی نگرانی ہوگی اور اس کے غلط استعمال سے آپ کو جیل و جرمانہ دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔