انسان کے دو روپ

…………..تحریر : اقبال حیات ؔ آف بر غذی………….

گاڑی کے انتظار میں سڑک پر کھڑا تھا ۔ ایک ذاتی نوعیت کی گاڑی تیز رفتاری سے آئی اور سڑک پر کھڑے پانی پر سے گزرتی ہوئی کیچڑ آلود چھینٹوں کو قریب کھڑے افراد پر اُچھال کر گزر گئی ۔ وہ لوگ اپنے کپڑوں کا جائزہ لیتے ہوئے گاڑی والے کے بارے میں نامناسب الفاظ بھی استعمال کیے۔ گاڑی والا تھوڑی دور جا کر رُکی ۔ سامنے والی سیٹ پر بیٹھی خاتون سے کچھ کہکر ایک جوان اُترے اور ندامت و شرمندگی کی کیفیت سے دوچار ہاتھ سینے پر سجائے متاثرہ افراد کے پاس گئے ۔ اور جھک کر انتہائی ادب سے ان سے معافی مانگی اور اپنی غلطی کو بے خیالی کا سبب قرار دی ۔ متاثرین نے اسے گلے لگائے اور ان کی اعلیٰ ظرفی اور کردار کی عظمت کو خراج تحسین پیش کئے اور بہترین تربیت پر ان کے والدین کی تعریف و توصیف کیں ۔یوں اخلا ق و شرافت کا بول بالا ہوا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے ۔ کہ انسان فطرتاََ خود پسند اور دوسروں پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کا خواہاں ہوتا ہے ۔ مالی استطاعت اور سرکاری عہدہ اس فکرو خیال کے بنیادی محرکات ہوتے ہیں ۔ آدم علیہ السلام سے لیکر تا ایندم”جسکی لاٹھی اس کی بھینس “کے مصداق طاقتور کمزور پر غلبہ حاصل کر تا آیا ہے ۔ اور اس کرۂ ارض پر بسنے والوں کی زندگی کے معیار کا محور بھی یہی اصول رہا ہے ۔ اس دھر تی پر بہت کم لوگ ایسے ھونگے جو مادی قوت کے حامل ہونے کے باوجود دوسروں کا لحاظ اوراحترام ملحوظ خاطر رکھیں گے ۔ اور یوں معاشرے میں اپنے حسن و اخلاق کی بنیاد پر اپنا ناک اونچا رکھیں گے ۔ اور دوسروں کے دل میں اپنے لئے مقام پیدا کریں گے ۔ اس کے بر عکس انسانوں کی اس دھر تی میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دوسروں کو ستانے اور ان کا حق چھیننے میں لذت محسوس کر تے ہیں ۔ اور دوسروں کو جینے کا حق دینے کے لے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ سڑک پر چلنے والی ایک سرکاری گاڑی ایک مسافر گاڑی کو کر اس کر تی ہوئی اسکی سائٹ کا آئینہ توڑ کر گزر گئی اور پھر گاڑی روک کر ڈرائیور نیچے اتر کر مسافر گاڑی کے ڈرائیور کا گریبان پکڑ کر الٹا چور کو توال کو ڈانٹنے کے مصداق سرکاری اثر و رسوخ کی بنیاد پر اسے ایک سرکاری تھپڑ سے نوازا۔ اسی دوران سرکاری گاڑی میں بیٹھا ایک انگریز مہمان نیچے اتر کر دونوں کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ تم کیوں لڑتے ہو ۔ تم دونوں کا کوئی قصور نہیں ۔ قصور صرف اس سڑک کا ہے جو وسعت کے اعتبار سے یکطرفہ ٹریفک کے قابل ہے اور اسے دو طرفہ ٹریفک کے لئے استعمال کرنے کی وجہ سے دونوں اطراف سے چلنے والی گاڑیاں پختہ سڑک پر اپنے استحقاق کے مدعی ہوتی ہیں ۔ جس پر ایک دوسرے سے ٹکرانا اچھنبے والی بات نہیں ۔ انگریز کے اس اصولی بات کو اگر توجہ کا مرکز بنایا جائے تو بھی بالادستی کے تناظر میں کسی چیز میں سرکار کا رنگ نظر آنے کی صورت میں اطاعت لازی ہوتی ہے ۔ سرکارکی گناہ بھی ثواب کے زمرے میں آتا ہے ۔ البتہ سرکار کی طرف سے رعایا کے حقوق کا خیال رکھنے کی اُمید رکھنا اس واقعے سے مما ثلت رکھتا ہے ۔ ایک شیر اپنے ساتھ بھیڑیے اور لومڑی کو لیکر شکار کے لئے نکلتے ہیں۔ ایک ہرن اور ایک خرگوش کا شکار کر کے انہیں کھانے کے لئے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں ۔ شیر تقسیم کے طریقے سے متعلق جب پہلے بھیڑیے سے رائے طلب کرتے ہیں ۔ تو وہ فوراََ تین برابر حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دیتے ہیں ۔ شیر غصے میں یہ کہتے ہوئے کہ تمہیں میری ہمسری کرنے کی جرات کیسے ہوئی بھیڑیے کو تھپڑ مارتے ہوئے اسکی ایک آنکھ باہر نکالتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ سے کھسک کر ذرا فاصلے پر جاکر اپنے آنکھ سے نکلنے والا خون چاٹنے لگتے ہیں ۔ پھر لومڑی سے تقسیم کے بار ے میں رائے طلب کرنے پر وہ کہتے ہیں کہ حضرت آپ جنگل کے سرکارہیں ۔ ہرن کو دو2وقت نوش جان فرمائیں اور خرگوش کو ناشتے میں تناول کیجئے ۔ شیر خوش ہو کر لومڑی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس سے پوچھتے ہیں ۔ کہ تمہیں اس قسم کا خوبصورت مشورہ دینا کس نے سکھایا ہے ۔ لومڑی کہتے ہیں کہ سرکار بھیڑیے کے حشر نے مجھے یہ سبق سکھایا ہے ۔
***

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔