میرے روزنامچے کے اوراق سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کہنے کو ایّاز بھائی گاڑیوں کا مکینک ہے )

…………….تحریر: شمس الحق قمرؔ چترال، حال گلگت

ایّاز بھائی سے میری پہلی ملاقات آج سے ایک سال پہلے پشاور شوبہ بازار میں ریلوے پھاٹک سے ملحق ایک ورکشاپ میں ہوئی ۔ یہی کوئی پانچ فٹ چار انچ کا قد ، بیضوی آنکھیں مگر اُن میں قلزم کی سی گہرائی اور گیرائی ، ماتھے پر ہلکی مگر ترو تازہ لکیریں جیسے کسی صاف و شفاف اور نرم و ملائم زمین پر سے کوئی مست ناگ لہراتے ہوئے ابھی ابھی گزرا ہو، گول مٹول سا چہرہ جس پر سیاہ و سفید رنگ کی کھچڑی اور ایک دوسرے میں الجھے بالوں کی مختصر سی داڑھی ، سنولے اور قدرے موٹے ہونٹ جن کے اوپر اُوندھی اُوندھی مونچھیں ، اُوپر کو اُٹھے ہوئے نپے تُلے شانے ، گرجدار مگر کمال کا مہذب لب و لہجہ، ہاتھ میں گولڈ لیف کا ہر دم سُلگتا ہوا سگریٹ اور ہنستا مسکراتا چہرہ آیاز اُستاد ہیں جو کہ گزشتہ بیس سالوں سے اِسی ریلوے پھاٹک کے آس پاس تمام قسم کے انجنوں کا کام ایک خاص فنی مہارت اور نمط سے کرتے ہیں ۔شوبہ بازار کے تمام دکاندار حضرات آپ کو جانتے ہیں اور آپ کی قدر کرتے ہیں ۔ میں نے اسلام آباد سے بہ راستہ پشاور گلگت روانگی سے پہلے مناسب جانا کہ گاڑی کسی اچھے مکینک سے معائنہ کراکے جاؤں تاکہ طویل راستے میں کسی قسم کی کوئی دقت پیش نہ آئے ۔ میرے بھائی محسن الحق نے مشورہ دیا کہ شوبہ بازار میں ریلوے پھاٹک کے ساتھ آیاز نام کا ایک موٹر کار مکینک ہے جو کہ اپنے کام میں یکتا ہے ۔ ہم سیدھا آیاز کے پاس گئے سلام دُعا کے بعد آیاز بھائی نے گاڑی کی اسٹیرنگ گھمائی اور مجھے بونٹ اُٹھانے کو کہا ۔ میں نے بونٹ اُٹھایا ، آیاز نے غور سے گاڑی کا معائنہ شروع کیا ۔ میں نے جلد بازی سے پوچھا ’’ استاد گاڑی میں مئلہ کیا ہے جو اتنے غور سے پڑتال کرنی پڑی ؟‘‘ مجھے لگ رہا تھا کہ آیاز ایک عام مکینک ہے لیکن مجھ پر آیاز بھائی کے اندر کے انسان کا راز اُس وقت منکشف ہوا جب انہوں نے میرے سوال کا جواب مسرور انور کی غزل کے اس شعر سے دیا:
؂ دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی ۔۔۔۔ کس نے توڑا دل ہمارا ۔۔۔۔۔۔۔ میں چونک پڑا ۔ لہجہ اتنا نازک اورکھرج ہموار کہ اُسے سنتے رہنے کو دل مجبور کرتا تھا ۔ میں نے دوبارہ سوال کیا’’ جو شعر آپ نے پڑھا اس کے خالق کے بارے میں بھی جانتے ہو ؟‘‘ یہ وہ سوال تھا جو میرے اور آیاز کے درمیاں تمام فاصلوں کو تاخت و تاراج کرتے ہوئے گفتگو کو تسلسل کے ایک نئے سانچے میں ڈھال دیا۔ آیا ز کی پیشہ وارانہ تندہی اور انداز سُخن سے آپ کی شخصیت کو تولنا بڑا مشکل تھا کیوں کہ پلڑا کبھی مکینک کا بھاری ہوتا تھا اور کبھی ادیب کا ۔ کیوں کہ دونوں کاموں میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ گاڑی کے ہر پرزے کا نہ صرف سائنسی نام سے موصوف باخبر ہیں بلکہ آپ کی زبان سے مشین کے ہر کَل مترشح ہو جاتی ہے ۔ ایک طرف گاڑی کا انجن پرُ زہ پُرزہ اور شکستہ پڑا ہے تودوسری طرف ادبی ٹوٹکوں کی بھرمار ۔ آپ کے اس طریقہ ہائے کار سے مجھے حسرت کا یہ شعر بار بار یاد آتا رہا کہ ؂ ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
میں جب تک اُس ورکشاپ میں موجود رہا آیاز کی حرکات و سکنات کو نظر تدقیق سے دیکھتا رہا۔ موصوف کے پاس ہر قسم کے لوگ آتے ہیں اُن گاہکوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ورکشاپ میں کام کرنے والے آیاز کو محض گاڑیوں کا ایک عام کارگر سمجھتے ہوئے رعبجمانے کی ناکام کوشش بھی کرتے ہیں لیکن آیاز بھائی کا لوچدار لہجہ ہر قسم کی بھڑکتی آگ پر پانی بن کے ٹپکتا ہے ۔ ورنہ گاڑیوں کا ورکشاپ ایسی جگہ ہے جہاں بازاری زبان کا تبادلہمعمول کی بات گردانی جاتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ صاحب موصوف کا ورکشاپ ایک دبستان ہے ، جو بھی آتا ہے وہ ہنر کا ہنر اور ادب کا ادب سیکھ کے چلا جاتا ہے ۔ موصوف کے ساتھ کام کرنے والے جو کارگر نوجوان مصروف عمل تھے اُن کی تہذہب اور گاہکوں سے ملنے کا انداز بھی نرالا تھا ۔ میں دیکھتا ، سوچتا اور ہر کام اور کیفیت کو ناپتا اور تولتا رہا ۔ آیاز استاد کے ساتھ نوجوانوں کی جو ٹیم مصروف عمل تھی اُس ٹیم کا ہر فرد خوش باش ، خوش الحان اور ذہنی آسودگی کا منہ بولتا مظہر تھا ۔ آیاز بھائی اپنی ٹیم کے تمام پیشہ وروں کے ساتھ نرمی ، ملائمت اور محبت سے پیش آتے تھے جب کسی سے کوئی غلطی ہوتی تو ہنستے ، مسکراتے اور اُونچے قہقہوں کا روح پرور ماحول بنا کر کام کرنے والوں کو سمجھا دیتے اور کام کرنے والے لڑکے بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی کوتاہیوں کو مثبت مسکراہٹوں میں تحلیل کر لیتے اور آگے کام چل پڑتا۔ آیاز استاد اپنے پیشے سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں ۔کسی بھی پیشے کے لئے اُس پیشے سے اخلاص مندی اور مہارت دو لازم و ملزوم ضرورتیں ہیں یہ دونوں صفات میں نے آیاز کے یہاں دیکھیں۔ ایک پرزے کو پیوست کرتے وقت کئی مرتبہ اُس پرزے کا بغور معائنہ کرتے ہیں ۔ میں نے از راہ تفنن پوچھا کہ پرُزہ گاڑی میں لگ گیا تو ہو گیا نا پھر بار بار چیک کرنے کے پیچھے کونسا فلسفہ چھپا ہوا ہے ؟ جناب معنی خیز انداز سے سیکنڈوں تک مجھے گھورتے رہے اور بولے ’’ اگر ایک ڈاکٹر کسی انسان کے جگر کی گردے کی یا کسی اور اعضأ کی پیوند کاری کرتے ہوئے یہ نہ دیکھے کہ جو اعضأ لگایا جا رہاوہ اُس انسان کے لیئے کہاں تک سود مند ہے اور کہاں تک نقصاندہ ہے تو وہ کامپیشہ نہیں بلکہ بیگار ہے ‘‘ دلیل کے طور پر انہوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا:
؂ رنگ ہو یا خشت و سنگ،چنگ ہو یا حرف و صوت معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
آیاز کی نظر میں کام کرنے کا مطلب پیسہ کمانا اور اپنی زندگی آسان بنانا نہیں بلکہ کام کا مفہوم دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہے ۔ آیاز بھائی گاڑیوں کے پرزے نکالتے ، چیک کرتے ، صفائی کرتے پھر پیوست کرتے اور مجھ سے گفتگو بھی کرتے رہے۔ اُن کی نظر میں انسان کی مثال ایک چراغ کی ہے جس کے تلے اندھیرا ہوتا ہے اور جس چراغ کے تلے اندھیرا نہ ہو وہ خود اپنے لئے خطرہ جان ہے ۔ موصوف جب کام میں منہمک ہوتے ہیں تو دھو پ ،چھاؤں گرمی اور سردی بے معنی ہوجاتے ہیں آپ کے اپنے کام سے محبت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے معلوم ہوتاتھا کہ مو صوف کے خاندانی ڈورں کا منبع کوئی معمولی مقام نہ ہوگا ۔باتوں باتوں میں معلوم ہواکہ صاحب موصوف دنیائے اسلام کے انتہائی قابل تکریم قبیلہ ’’قریش ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تھا ۔ فتح سندھ کے بعد کچھ فاتحین واپس گئے اور اُن میں سے کچھ علمی طور پر آسودہ لوگ محمد بن قاسم کے ایمأ پر برصغیر کے مختلف علاقوں میں سکونت اختیار کر گئے ۔ اس سکونت کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے جاہل لوگوں کو علم کی روشنی سے مستفیض کیا جائے ۔ لہذا آیاز کے آباؤ اجداد کو سوات تھانہ کا علاقہ تفویض ہوا ۔ یوں سوات میں علم و ہنر کی روشنی پھیلانے میں آیاز استاد کے آبا و اجداد کا کلیدی کردار رہا ہے ۔ آیاز صاحب کو پشتو کے علاوہ اُردو ، ہنکواوار پنجابی پر اتنی ہی گرفت حاصل ہے جتنی اُس کی اپنی مادری زبان پر ۔ اس کے علاوہ انگریزی، فارسی ، عربی ، براہوی اور سندھی زبان پر ضرورت کی بول چال کی حد تک گرفت رکھتے ہیں ۔ قرآن کریم کے علاوہ کوئی ایک ہزار تک ضخیم ادبی کتابوں کا عمیق مطالعہ کر چکے ہیں ۔ جن میں افسانے ، ناول اور داستان کے علاوہ سفر نامے اور سوانح شامل ہیں ۔ بات کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہر لفظ اُس کے دل سے نکلتی ہے
؂ پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
باتوں باتوں میں شام ہوگئی اور ہم نے اس وعدے کے ساتھ اپنی نشست ختم کی کہ اگلے سال اگر زندگی رہی تو دوبارہ ملیں گے۔ آپ کو بھی جب کھبی شوبہ بازار جانا ہو ا تو اس سحر انگیز شخصیت سے ضرور ملئے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔