جس کھیت سے دھقان کو میسر نہ ہو روزی۔ ۔ ۔ ۔

پروفیسر رحمت کریم بیگ
………..03435911941…….

 

پچھلے دنوں ایک آن لائن اخبار میں چترال میں نئے تعینات ڈی سی صاحب کے بارے میں ایک لکھاری نے جو کچھ لکھا اسے پڑھ کر حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا کہ لوگ کس حد تک سوچے بغیر کالم لکھتے ہیں حیرت اس بات پر کہ ڈپٹی کمشنر کے چترال پہنچتے ہی ایک لکھاری نے اس کی مدح سرائی میں زمین اسمان کے قلابے ملانے کی کوشش شروع کی پتہ نہیں کہ آگے چل کر وہ اور کیا کیا گل کھلائے گی لکھاری کو پہلے سوچو پھر بولو پر عمل کرنا چائے۔ کوئی بھی بیو رو کریٹ اول اول اپنا تاثر قائم کرنے کے لئے کچھ ایسے چھوٹے موٹے کام کر کر اپنا ایک امیج بیٹھاتا ہے اور یہ ان کی اکیڈمی کی تربیت کا بنیادی اصول ہے اس سے عوام کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بس یہ بندہ فرشتہ ہے کوئی بھی سی ایس پی افسر کھبی فرشتہ نہیں ہوتا بلکہ وہ شیطان کا چیلا ہوتا ہے اور اس کو میکیاولی کے پرنس نامی کتاب کے بنیادی اصولوں پر ٹریننگ دیجاتی ہے خبردار چرالیو خبردار: یہ چاپلوسی کا نہیں گہری غور فکر کا مقام ہے۔ ہر لکھاری اور صحافی کو اس بات کا پتہ ہونے تک انتظار کرنا چاہئے کہ نیا ڈی۔ سی۔ کس قسم کا افسر ہے کتنا تجربہ کا ر ہے اور اس کے عوام کے ساتھ کیا ڈیلنگ ہوگی جو اس زیر بحث موضوع میں ابھی تک دیکھنے کو نہیں ملی۔۔۔ در اصل سی ایس ایس افسران ایک خاص مائنڈ سیٹ کے بندے ہوتے ہیں ۔ ہوتے تو یہ شروع میں بہت نیک خیالات والے نوجواں مگر سول اکیڈمی کی زہریلی فضاء میں تربیت لینے کے بعد ان کی اتنی زیادہ برین واشینگ کی جاتی ہے کہ وہ فرغون کے بچے بن کر نکلتے ہیں اور دوسرے انسانوں کو اپنی جوتی کے برابر بھی نہیں سمجھتے اور ان کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹ سے غریب عوام کو ان کے پاس جا کر بات کرنے کی جر ت بھی نہیں ہوتی۔
مذکورہ لکھاری نے ایک اور افسر کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھا جو اسامہ نام سے جانا جاتا تھا اللہ اس کو جنت میں جگہ دے مگر وہ بھی کوئی مثالی افسر نہ تھا 2015 کے سیلابوں کے مہینوں میں وہ یہاں تعینات تھا اور اس وقت ریلیف کے لئے جتنی فنڈ مرکزی اور صوبائی حکومت نے دی تھی اس کا عشر عشیر بھی ان کی کمال دیانت داری سے عوام تک نہ پہنچ سکا۔ اس کے بعد زلزلہ آیا اور اس کی ریلیف کا نقد اور جنسی امداد متاثریں کو نہ ملا اور اس کا ایک حصہ اب بھی تہہ خانوں میں پڑی ہے اور قرابت داری میں تقسیم کی جا رہی ہے۔ اُسامہ کے دور میں بمباغ کا نہر تباہ ہوگیا سینکڑوں خاندانوں کی زمینیں بنجر ہو گئیں ا ور دوسال میں اس کے سر سبز باغات خشک ہوگئے مگر اسامہ نے ریلیف کے پیسے بمباغ کے نہر کی بحالی کے بجائے لیینک کے مقام پر ایک بیکار پارک میں لگا کر متاثرین کا حق مار دیا۔
میری مودبانہ گذارش ہے کہ کسی بھی بیوروکریٹ کو فرشتہ نہ سمجھا جائے بلکہ ہر بیورو کریٹ کو شیطان کا کارندہ سمجھ کر ان کے کار توتوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے کہ بیو رو کریٹ ایک پبلک سرونٹ ہوتا ہے اور وہ عوام کا حاکم ہر گز نہیں ہے بلکہ خادم ہے اس کی تنخواہ، اسکی گاڑی کا تیل، اس کے دوسرے درجنوں تعیش کے سامان عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ادا کئے جاتے ہیں ۔ لکھاریوں سے درخواست ہے کہ وہ چاپلوسی نہ کریں صحافت کی اچھی نمایند گی کریں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔