جس کھیت سے دھقان کو میسر نہ ہو روزی….بیوروکریسی اور عوام

 پروفیسر رحمت کریم بیگ
……….03435911941

مملکت خداداد پاکستان روز اول سے انڈین سول سروس کے افسران کی گرفت میں پھنسا ہوا ہے اور اس شاہی مزاج طبقہ نے ملک کی تعمیر و ترقی کا سارا کام اپنے زمے لینے کا جو عہد کیا تھا اس دور کے پہلے کھیپ کی ریٹائرمنٹ کے وقت وہ اپنے جانشینوں کو وہ اصل جذبہء حب الوطنی منتقل نہ کرسکے اور ان کے جانشین اس معاملے میں نہایت کمزور ثابت ہوئے جس کے نتیجے میں ملک میں بد عنوانی اور رشوت ستانی کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں اور یہ عمل بغیر چیک اینڈ بیلنس کے چلتے رہنے کے بعد بے لگام ہوگئی، کوئی حساب کتاب نہیں کیا گیا کسی کو ان کے بد اعمالیوں اور بد کردار ی کی سزا نہیں دی گئی، وہ سیاست دان جو دس سال میں آیئن نہ بنا سکے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہے وہ بیوروکریسی کو کیا لگام دیتے۔ اور ایوبی دور میں تمام تر توجہ سیاست دانوں کو کچلنے میں صرف کی گئی مگر جنرل یحی خان نے اپنے مارشل لاء کے دور میں تین سو تینتیس سی۔ ایس ۔ پی افسران کو بد عنوانی کے الزام میں بیک جنبش قلم گھر بھیجدیا یہ پہلا واقعہ تھا جو ہمارے نوجوانی کے زمانے میں پیش آیا اور ہمیں اچھی طرح یاد ہے اور یہ ۱۹۶۹ ء کا واقعہ ہے اس کے بعد بھی ان لوگوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ اپنا ایک یونین سا بنایا جو اپنے حقوق کے لئے لڑنے کی عرض سے قائم کی گئی تھی اور یہ چونکہ اعلی عہدوں پر تعینات تھے اور سول سروس کی ساری طاقت ان کے پاس تھی اس لئے انہوں نے خوب مزاحمت کی جس کو بھٹو مرحوم نے توڑنے کی کوشش کی اور لٹرل انٹری کے نام سے سول سروس میں سے اعلی کار کردگی کے مالک افسران سے ایک الگ اور نئے طرز کا امتحان لے کر انہیں دوسروں پر فوقیت دی گئی اور اس قدم نے ان کے اندر اس شخص کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی جو ان کی زوال پر منتج ہوئی۔
سی۔ ایس پی افسران کا یہ طبقہ اپنی ٹریننگ کے نتیجے میں ایک الگ زہنیت کا حامل مخلوق بن کر نکلتا ہے اور اپنی اس شیطانی تربیت کے نتیجے میں وہ عوام کو چوپائے سے زیادہ نہیں سمجھتے حتی کہ منتخب نمائیندوں کو بھی اپنی جوتی برابر سمجھتے ہیں اور ہر بندہ ان کی نظر میں چور اور بد قماش ہی نظر آتا ہے ان کی یہ فرغونیت ان کو کبھی راہ راست پر نہیں انے دیتی۔ وہ عوام کے مسائل کیا حل کریں بلکہ ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے ، ان کو دبانے، ان کی اواز کو ملک کے خلاف قرار دینے کے لئے قسم قسم کے دفعات کو میدان میں لاکر اپنا رعب بٹھانے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں اس قسم کا ایک واقعہ پچھلے سال گذر چکا جس میں ایک جھوٹے مدعی نبوت کو اپنی تحویل میں لیکر عوام پر غلط دفعات لگائے گئے اور عوام کے ساتھ جو زیادتی کی گئی وہ شرمناک تھی اس میں سابق ڈی۔پی۔ او کا رول انتہائی منفی تھا اور یہی دوسرے ضلعی افسران کا بھی وطیرہ ہوتا ہے، ہم نے آج تک کسی سی ایس پی افسر کو عوام دوست نہیں دیکھا وہ اور ضلعی پولیس عوام کو ایسی نظر سے دیکھتی ہے گویا سارے چور ڈاکو ہیں حالانکہ پولیس کی اپنی ناک کے نیچے منشیات فروش چترال کی نئی نسل کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے اور چترال پولیس ان کو ایک دن پکڑتی ہے اور دوسرے دن چھوڑ دیتی ہے اگر یہی حال برقرار رہی تو کم وقت کے اندر عوام کے اندر پکنے والا غصے کا لاوا پھٹ سکتا ہے اور یہ کسی کی مفاد میں نہیں ہوگی بیوروکریسی اور عوام میں جو گیپ ہے اس کے بانی سی۔ایس۔پی افسران ہیں جو عوام کے ساتھ توہین آمیز سلوک کا روئیہ اپنائے ہوئے ہیں ان کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ وہ پبلک سرونٹ ہیں اور عوام کے ملازم ہیں کہ ان کی ٹیکس سے تنخوہ کھاتے ہیں ان کا عوام پر کوئی احسان نہیں ہے۔ عوام کو انصاف نہیں مل رہا، ایک درخواستی ایک افسر کے دفتر کے باہر سارا دن انتظار کرکے مایوس واپس جاتا ہے ملاقات یا درخواست پیش کرنے کا وقت نہیں ملتا، افسر سیٹ پر نہیں ہے، باہر گیا ، میٹنگ میں ہے عوام کا کام نہیں ہو پاتا، عوام اس طرز عمل پر مطمئن نہیں ہے، سیاسی جما عتین شاکی ہیں، غریب بد دعائیں دیتا پھرتا ہے،قاضی کی عدالت موجود نہیں بیوروکریسی کا ضمیر مردہ ہے، عوامی خدمت کا جذبہ مفقود ہے،ملک کی حالت یا کم از کم اپنے دفتر کی حالت کو بھی سدھارنے کا خیال نہیں ہے، ماتحت سے کام لینے کا طریقہ نہیں آتا یا بہت سخت ہے جس پر ماتحت نالان ہے اور تعا و ن نہیں کرتا یا بہت نرم ہے کہ ماتحت بے لگام ہے ہر دفتر میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، دفتری طریقۂ کار اتنا دقیانوسی اور از کار رفتہ ہے کہ آج کے دور سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی، بیو روکریٹ کا سارا سوچ اپنی زیرین اور بالائی امدنی پر مرکوز ہے ، ہم ایک اہم میٹنگ میں موجود تھے ڈی۔سی۔اوبھی موجود تھا بحث کے ایک اہم موڑ پر بغیر معذرت کے اٹھ کر اپنے گھر میں چلا گیا اور بیس منٹ انتظار کے بعد جب واپس آیا تو ہم نے دیکھا کہ وہ اس دوران اپنی شلوار قمیض بدلنے گیا تھا جو اس کی نظر میں ایک اہم کام اور بیوروکریسی کے دبدبے کو دکھانے کا کمپلیکس تھا یہی ہے لچھن ہمارے افسران کی باقی آپ کو بھی بہت کچھ معلوم ہے مگر زبان پر نہیں لاتے اور ہم سے یہ باتیں برداشت نہیں ہوتیں اس لئے ضبط تحریر میں لانے پر مجبور ہیں۔ سارے چترال میں سیلا بوں کے بعد بحالیات کا کام چیونٹی کی رفتار سے کیا جا رہا ہے، فنڈز ریلیز نہیں کئے جاتے اس سب کا مطلب یہ ہے کہ بیوروکریسی اطمینان بخش کام نہیں کر رہی اور عوام انصاف سے محروم ہے اور محرومیت بغاوت کے جذبے کو اکساتی ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ ایسا ہوکر رہیگا اور اس سیلاب میں کسی کا بھلا نہیں ہوگا ۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔