کشمیر کا قومی تماشا

…….شمس الرحمن تاجک……

سوال بنتا ہے کہ قومی جوش وجذبے سے یکجہتی کشمیر منانے سے کشمیر اور کشمیروں یا پھر پاکستان اور پاکستانیوں کو کیا فائدہ مل رہا ہے۔ سوال پھر یہ بھی بنتا ہے کہ کیا واقعی ہم یکجہتی کشمیر کسی جوش اور جذبے سے مناتے بھی ہیں۔ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ ہمارے سات دہائیوں کے جوش و جذبے نے کشمیر اور کشمیروں کو ہم سے دور اور مزید دور کرنے کے علاوہ کیا کردار ادا کیا ہے جو ہم فرائض کی ادائیگی کی طرح ہر سال جوش و جذبہ سر عام دکھانے کے بجائے صرف اخبارات کی شہ سرخیوں میں جمادیتے ہیں۔ستر سال سے اس کا کوئی نتیجہ کیوں نہیں نکلا۔ پھر ایک مشکل سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایسی قوم اکیسویں صدی میں قوم کہلانے کے لائق بھی ہے جو ستر سال سے اپنے تمام وسائل، تمام جوش و جذبہ استعمال کرنے کے باوجود اپنی شہ رگ دوسروں کے چنگل سے چھڑانے میں ناکام ہے۔
یہاں یہ سوال بھی کم اہم نہیں کہ کشمیر کاز کو زندہ رکھنے کے لئے جو طبقہ وسائل فراہم کررہا ہے چاہئے وہ انسانی ہوں یا معاشی۔اس طبقے سے کوئی پوچھنے کا روادار نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں، نہ ہی کوئی یہ بتانے کو تیار ہے کہ ان کے ٹیکس کے پیسوں سے جو کروڑوں روپے سالانہ اس ایشو پر خرچ کئے جارہے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اور کب نکلے گا۔زمانہ قدیم کی کہانیوں میں جن پالنے کا ایک تصور پایا جاتا ہے ایک ایسا جن جس کو جو بھی ملتا ہے کھا لیتا ہے کہانی میں ایک موقع ایسا بھی آتا ہے کہ مالک کے پاس جن کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں بچتا۔ پھر وہ مالک کے اردگرد کی انسانی آبادی کو کھانا شروع کرتا ہے۔ ایک دن مالک بھی اسی دسترخواں کی زینت بنتا ہے جو جن پر قابو پانے کے بعد مالک نے سجائی تھی۔ یہاں بھی کچھ ایسی ہی حالت ہوگئی ہے کہ آکسیجن کے علاوہ کوئی ایسی قابل استعمال چیز باقی نہیں رہا جس پر ٹیکس نہ لگا ہو۔ آنے والے کچھ سالوں میں اس پر بھی ٹیکس لگے گا۔ پھر جن کے مالک کی باری نہیں آئے گی اس کی کیا کنفرمیشن ہے۔
ایک تو یہ حیرت موت تک پیچھا چھوڑنے کے لئے تیار نہیں کہ ہم کچھ خاص دنوں میں چھٹی کیوں کرتے ہیں۔ اس سے اس کاز کو، اس ہستی کو یا پھر ملک کو کیا فائدہ مل رہا ہے۔ یکجہتی کشمیر کو ہی لیجئے۔ ہماری پوری قوم پانچ فروری کو سو کر دن گزارتی ہے۔چھٹی دے کر قوم کو سلانے سے یکجہتی کشمیر کا حق کیسے ادا ہوتا ہے۔ ہمارے سونے سے کشمیر کی آزادی کا کیا کنکشن ہے، پورے دن کی اس کاہلی سے مودی کو کیا فرق پڑے گا۔ یہ سونے کی پریکٹس تو ہم گزشتہ کئی سالوں سے دہرا رہے ہیں اس سے من موہن سنگھ جیسے وضع دار اور معصوم سے آدمی کا کچھ نہیں بگڑا تو مودی جیسے سند یافتہ قصاب کو کیا نقصان ہونے والا۔ ہماری جو مائیں بہنیں کشمیر میں کل انڈین آرمی کے درندوں کا شکار بنیں گی۔ ہمارے سونے سے ان کی کس تکلیف میں کمی آئے گی۔خدارا کوئی تو ہو جو میرا یہ مسئلہ حل کرے۔ میرے اس سوال کا جواب دے کر دنیا میں ویسے بھی ہمیں کسی فائدے کی لالچ نہیں اپنی عاقبت کی بہتری کے لئے دعائیں سمیٹ لے۔
سوال پھر یہ بھی بنتا ہے کہ جس قوم اور ملک کی شہ رگ اس کے سب سے بڑے دشمن بھارت کے پاس،جس کی معیشت امریکہ اور چین کے پاس اور جس کی دنیاسنوارنے اور عاقبت بچانے کے تمام نسخے سعودی عرب کے پاس ہوں۔ وہ ملک کشمیر جیسے ایشو کو کیونکر حل کرسکتا ہے۔ مسئلہ حل کرنے کی ہمت ہے نہ ہی وسائل۔ پھر یکجہتی کے نام پر فضول میں پورے ملک کو بند کرکے چھٹی منانے کی کیا تک بنتی ہے۔ایک منٹ کی خاموشی کے بجائے اگر آپ چار گھنٹے یا پھر ساری زندگی بھی خاموش رہیں اس سے ہوگا کیا۔نتیجہ کیا نکلے گا۔ یا پھر یہاں بھی ہم نتائج کا پھل اس دنیا میں حاصل کرنے کے بجائے یہ بھی ثواب کی نیت سے کررہے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ میرا دشمن اگر پہلوان ہے اور مجھے پہلوانی نہیں آتی تو عقل مندی اسی میں ہے کہ میں اکھاڑے میں ہی نہ اتروں۔ اس سے عزت کم نہیں ہوتی بلکہ اکھاڑے میں جاکر جو بے عزتی ہونی ہے اس کے ساتھ ساتھ ہڈی پسلی بھی سلامت رہے گی۔ مگر ہم وہ لوگ ہیں جو کھلی آنکھوں مکھی نگلنے کے بعد اس کے حرام و حلال پر بحث اس نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے کررہے ہوتے ہیں کہ مکھی تو انگور کے ساتھ ہم نے پیسے دے کر خریدچکے تھے۔ اس بات پر کوئی سوچنے کو بھی تیار نہیں کہ مکھی کھائے جانے کے بعد انسانی صحت پر اس کے اثرات کیا ہوں گے۔
سوال پھر یہ بھی بنتاہے کہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہوئی ہجوم کو کسی نے ستر سالوں میں انسان نہیں سمجھا تو ان کے سوالوں کا جواب کون دے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔