داد بیداد …آٹا بنیا دی ضرورت …ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آٹا بنیا دی ضرورت ہے خا ص طور پر پا کستان میں آٹا لو گوں کی روز مرہ خوراک کا اہم حصہ ہے خصو صاً غریب طبقہ اور غر بت کی لکیر سے نیچے وقت گذار نے والی 62فیصدآبادی پا کستا ن میں آٹا استعمال کر نے کی محتا ج ہے غریبوں کے گھروں میں صابن، شیمپو، ٹو ٹھ پیسٹ، سپرے، لو شن، کریم اور باقی چیزوں کے استعمال کا کوئی تصور نہیں ہے اگر مزدوری ملے اور پیسہ ہاتھ آئے تو سبزی اور دال کے بارے میں سو چا جا تا ہے، اگر کسی نا گہا نی کرامت کی وجہ سے دو چار پیسے مزید ہاتھ آئیں تو انڈہ، مر غی اور گوشت کے نا م یا د آجا تے ہیں غریب کے لئے گندم، جوار یا جو کا آٹا بہت بڑی نعمت ہے اس لئے نظیر اکبر آبادی نے اپنی نظم ”روٹی نا مہ“ کے اندر روٹی کو سما جی زند گی کا مر کز و محور قرار دیا تھا ؎
کپڑے کسی کے لا ل ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
صدر ایوب کے دور میں جب امریکہ سے گندم در آمد کیا گیا تو اونٹ کے گلے میں ”امریکہ تیرا شکریہ“ کی تختی چسپاں کر کے اس کی تصویریں اتروا ئی گئیں یہ تصویریں پا ک امریکہ تعلقات پر شائع ہونے والی کتابوں میں تواتر کے ساتھ چھپتی آرہی ہیں امریکہ کے نا ئب صدر لنیڈن جا نسن نے پا کستانی سار بان بشیر احمد کو کرا چی سے واشنگٹن بلا یا اور اُسے ذا تی دوست کا در جہ دیا سندھ، پنجا ب اور وسطی خیبر پختونخوا کا نہری نظا م بھی گندم کی فصل بڑھا نے کے لئے بچھا یا گیا ورسک، منگلا اور تر بیلا کی بجلی آنے کے بعد ٹیوب ویلوں کی مد د سے مزید پا نی فراہم کر کے وطن کے اندر خوراک کی کمی دور کر نے پر تو جہ دی گئی جنرل ضیا ء الحق کے دور میں پا کستان گند م برآمد کرنے والا ملک بن گیا یہ ساری باتیں پشاور کی گلی کو چوں میں لو گوں سے ملنے کی صورت میں سامنے آتی ہیں آپ چوک یا د گار سے کریم پورہ، گھنٹہ گھر، بازاکلان یا مینا بازار کی طرف روانہ ہو جا ئیں تو بائیں طرف چار تندور نظر آتے ہیں ہر تندور کے سامنے غریبوں، مسکینوں اور نا داروں کی لمبی قطار ہوتی ہے خدا کا کوئی بندہ آکر 100یا 200رو ٹیوں کے پیسے دے جا تا ہے تو روٹیاں تقسیم کی جا تی ہیں پشاور کے شہری بتا تے ہیں کہ یہ سلسلہ 1960کے عشرے میں آنے والے قحط اور افلا س کے وقت شروع ہو اتھا اب تک چلا رہا ہے نہ سخا وت کرنے والوں میں کمی آئی اور نہ روٹی کی قطار میں لگنے والے کم ہوئے تازہ ترین رپورٹ کے مطا بق اقوام متحدہ نے خبر دار کیا ہے کہ اس سال پوری دنیا میں قحط کا خطرہ ہے پاکستان کے حوالے سے عالمی بینک نے جو اعداد وشمار جا ری کئے ان اعداد و شمار کی رو سے پا کستان میں 60لا کھ کی آبادی کو غذا ئی قلت، بھوک اورا فلا س کا سامنا ہے ما ہرین نے گذشتہ سال کے سیلا ب کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا، دیگر وجو ہا ت میں عالمی حدت، مو سمی تغیر شامل ہیں ما ہرین نے سندھ اور بلو چستان میں کھڑی فصلوں کی بر بادی کو قحط کا بڑا سبب قرار دیا ہے رپورٹ کی رو سے پنجا ب اور خیبر پختونخوا کی آبا دی کو بھی قحط کی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن صورت حال پیش گوئی والی نہیں اب یہ ما ضی اور حال کا واقعہ ہے ”تبا ہی آنہیں رہی بلکہ تبا ہی آچکی ہے“ اب کر اچی اور کوئیٹہ سے لے کر گلگت بلتستان، چترال اور خیبرتک ہر شہر، ہر ٹاون، قصبہ اور گاوں میں آٹے کے لئے لو گوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا تی ہیں ان قطا روں کی تصویر یں میڈیا پر بھی آرہی ہیں دوسال پہلے آٹا 40روپے کلو تھا اور ہر جگہ دستیاب تھا 2023میں آٹا 70روپے کلو ہے اور دستیاب بھی نہیں گاوں کی مسا جد سے جس طرح جنا زے کا اعلا ن ہوتا تھا اس طرح آٹے کا اعلا ن ہو تا ہے کہ آج جمعرات کو محلہ گل اباد میں آٹے کی مزدا آئے گی اور لوگ سارا دن آٹے کی مزدا کے انتظار میں گذار دیتے ہیں دو سال پہلے لو گ سکول، ہسپتال، سڑک، نلکا وغیرہ مہیا کر نے کا مطا لبہ کر تے تھے، سبزی، آلو، پیاز ٹما ٹر کی مہنگا ئی کا ذکر کر تے تھے، گوشت اور انڈوں کی مہنگا ئی پر احتجا ج کر تے تھے آج لو گ آٹے کی قلت، آٹے کی مہنگا ئی اور آٹے کی نا یا بی کا رونا روتے ہیں نظیر اکبر ابادی نے درست کہا ؎
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولے نہیں بدن میں سما تی ہیں روٹیاں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔