وقت اور ہم….مفتی محمد غیاث الدین
وقت کیا ہے؟
وقت یا زمانہ کس کانام ہے،اس بارے میں فلسفیوں کے درمیان شدید ترین اختلاف پایا جاتا ہے،وہ اس گتی کو سلجھانے کی کوشش میں خود اس میں ایسے الجھ گئے کہ سلجھنا دستِ رست سے کوسوں دور ٹہرا،چنانچہ ان میں سے بعض نے وقت کا انکار ہی کر دیا،اور جنہوں نے اقرار کیا وہ مختلف حصوں میں بٹ گئے،ایک نے کہا کہ زمانہ جوہر ہے اور دوسرے نے اس کے خلاف دلائل دیتے ہوئے اس کو عرض قرار دیا۔مزید برآں ان میں سے بعض نے زمانے کو تین حصوں یعنی ماضی،حال اور مستقبل میں منقسم کہا ،اور بعض نے ماضی کا انکار کرتے ہوئے اس کو ماضی اور مستقبل سے عبارت قراردیا،جیساکہ یہ بعض عرب شعراء کابھی خیال ہے۔
حکماء نے وقت کو سیال یعنی بہنے والی شئ قرار دیا،گویا کہ بہتا پانی،جس کو کسی آں سکون نہیں۔صوفیاء نے وقت کو دو دھاری تلوار سے تشبیہ دی،اور کہاکہ” الوقت کالسیف ان لم تقطعہ لقطعک” یعنی وقت دو دھاری تلوار کی مانند ہے اگر تم نے اس کو نہیں کاٹا وہ تمہیں کاٹ دے گی۔
وقت اللہ تعالیٰ کی انمول نعمت ہے:
وقت کیا ہے؟ جو بھی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی انمول نعمت ہےاور ایسی نعمت جو سب کو میسر ہے،بلاشبہ ہے انمول لیکن بغیر مول کے ہر امیر وغریب، شاہ وگدا،عالم وجاہل ،چھوٹے بڑے سب کو حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ کےاس گراں مایہ سرمایہ کو یہ حضرت انسان جس بے دردی ،لاپرواہی،اور بے فکری کے ساتھ ضائع کرتا ہے شاید کسی دوسری نعمت کو نہیں کرتا، ایک عربی شاعر اس بارے میں یوں رقمطراز ہوتے ہیں :
والوقت انفس ما عنیت بحفظہ واراہ اسھل ما علیک یضیع
یعنی وقت ایک نفیس ترین شئ ہے جس کی حفاظت کا تمہیں مکلف بنایا گیا ہے جب کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہی چیز تمہارے پاس سب سے زیادہ آسانی سے ضائع ہو رہی ہے۔
وقت کی مثال کڑکڑاتی دھوپ میں رکھی برف کی سل سے دی گئی ہے،جو ہر لمحہ پگھلتی رہتی ہے،انسان کی زندگی کی بھی یہی حالت ہے،ہر سیکنڈ ہر لمحہ اس میں کمی آتی رہتی ہے۔
ہر انسان کے لئے اس کی زندگی سے بڑھ کر کوئی چیزاہم نہیں ہوتی،نہ سونا نہ چاندی ۔زندگی کے مقابلے میں یہ دنیا ہیچ ہے۔لیکن زندگی خود کیا ہے؟زندگی ساعات،منٹوں، گھنٹوں،دنوں ،ہفتوں،مہینوں اور سالوں کا نام ہے۔کتنا نادان ہے یہ انسان دنیا کے بدلے زندگی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا لیکن مفت میں زندگی دے جاتا ہے،زندگی کے بدلے ہیرے جوہرات لینے کے لئے تیار نہیں ہوتا لیکن ہوٹلوں،پارکوں،سینما گھروں اور فضول گپوں میں زندگی اڑادیتا ہے۔ یوں کب زندگی تمام ہوتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا ۔
صبح ہوئی شام ہوئی زندگی یوں ہی تمام ہوئی
ایک عربی شاعر بڑے ہی خوبصورت انداز میں وقت اور زندگی کی حیثیت کو الفاظ کا لبادہ پہناتے ہوئے یوں گویا ہوئے ہیں:
حیاتک انفاس تعد فکلما مضیٰ نفس منھا انقضت بہ جزء
یعنی اے انسان!تیری زندگی چند گھڑیوں کا نام ہے،ان میں سے جب بھی ایک گھڑی گزر جاتی ہے،تمہاری زندگی کا اتنا حصہ کم ہوجاتا ہے۔
بلاشبہ زندگی چند ساعات اور گھڑیوں کانام ہے،جس میں ہر لمحہ کمی آتی رہتی ہے،لیکن ان گھڑیوں کی قیمت کیا ہے؟ تو کسی نے ان کو ہیرے اور جوہرات کےساتھ تشبیہ دی،کہ وقت اور زندگی کا ہر ایک سیکنڈ ایک ہیرہ ہے،یوں زندگی کے ساعات اشرفیوں کے ڈھیر کے مانند ہیں ،جنہیں پتھر سمجھ کر پھینکنا نہیں چاہئے ،اور کسی نے کہا :”الوقت اثمن من الذھب” ،یعنی وقت سونے سے بھی قیمتی شئ ہے،اس کے ساتھ زنگ زدہ لوہے کا سلوک نہیں کرنا چاہئے، شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
تیرا ہر سانس نخل ِموسوی ہے یہ جزرومد جواہر کی لڑی ہے
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہماری یہ زندگی اور اس کا ہر لمحہ انمول ہے۔دنیا میں کوئی شئ ایسی ہے ہی نہیں جو اس کا مول بن سکے۔چنانچہ ظاہر ہے کہ کوئی بھی عاقل انسان زندگی کے بدلے پوری دنیا لینے پر بھی راضی نہیں ہوگا۔
اقوام کی کامیابی کا راز:
علم وفضل کسی فرد یا قوم کی میراث نہیں جو اس کو بلا کسی محنت کے ملے جائے ،بلکہ یہ انتہائی با غیرت وصف ہے،اسی لئے کہا جاتا ہے:”العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک” یعنی علم اپنا تھوڑا سا حصہ بھی آپ کو نہیں دے گا جب تک آپ اپنے آپ کو پورا اس کے سپرد نہ کردے۔اوراس کائنات ِ رنگ وبو میں اللہ تعالیٰ کی سنت بھی یہ ہےکہ یہاں صرف وقت شناس اوروقت کے قدر دان لوگ ہی اپنے ارادوں اور عزائم میں کامیاب ہوتے ہیں،چاہے عزمِ خیر ہو یا عزمِ شر۔اوراس گردشِ لیل ونہار میں صرف ان ہستیوں کو حیاتِ جاویدانی نصیب ہوتی ہے جن کی نظریں گھڑی کی سوئی پر ہوتی ہیں،اور وہ اپنی زندگی کے گرانمایہ پونچی کے پل پل کا حساب رکھتے ہوں اور اس کو ضیاع سے بچاتے ہوں۔ باقی دنیا میں آنے والے آتے ہیں اورخوابِ غفلت میں جی کر چلے جاتے ہیں ، ان کے جسم کے ساتھ ان کا نام بھی دفن ہو جاتا ہے۔
دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جس کو کھونے کے بعد دوبارہ حاصل نہ کیا جاسکتا ہو،سوائے وقت کے۔وقت جو ماضی،حال اور مستقبل سے عبارت ہےاگریہ ایک دفعہ چلا گیا تو پوری زندگی دوبارہ کھبی بھی نہیں ملے گا۔وقت کو ضائع کرنے پر جو ندامت وپیشمانی و پچھتاوا ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے،اس کے تدارک کی صورت سوائے انگشتِ بدندان ہونے کے اور کچھ نہیں رہتی۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ عقلمند انسان وہ ہے جو آغاز سے انجام کے بارے میں سوچے،تاکہ کل کو پچھتاوے کی نوبت ہی نہ آئے،شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ہے عاقل وہ جو کہ آغاز میں سوچے انجام ورنہ ناداں بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے
قوم افراد کی اکائی کے مجموعہ کانام ہے،اور وقت اس اکائی کا سرمایہ ہے،ترقی وکامرانی کی راہیں صرف وہی افراد طے کرسکتے ہیں جو اس بیش بہا سرمایہ کو ٹھیک ٹھیک استعمال کریں،اور اس کو ضائع ہونے سے بچائیں ،افراد ترقی کی شاہراہ پر ہوں گے تو قوم بھی ترقی کر رہی ہوگی،اسی لئے کہا جاتا ہے کہ افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہوتی ہے،کسی قوم کے زوال کی پہلی علامت یہ ہے کہ اس کے افراد ضیاعِ وقت کی آفت کا شکار ہو جائیں۔
آئیے سب مل کر آج کے وقت کو کل کے لئے کارآمد بناتے ہیں۔پرسوں کی طرح کل بھی چترال کے خراب حالات کا رونا رونے کے بجائے آج سے اس کی تعمیر وترقی کے لئے اپنے مقدور بھر کوشش کرتے ہیں،آٹھ فروری 2024ء کی تاریخ کو ہمارا فیصلہ چترال کو یا تو بلندیوں کی معراج پر چڑھائے گا یا پستی کی گہرائیوں میں دھکیل دے گا۔