آواز اقبال

گلگت بلتستان و چترال میں نوجوانوں کی خودکشیاں، ذہنی صحت کا بحران اور اجتماعی ذمہ داری

تحریر: اقبال عیسیٰ خان

گلگت بلتستان اور چترال میں نوجوانوں کی خودکشیاں ایک بڑھتا ہوا المیہ ہیں جو ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت کے بحران اور ریاستی غفلت کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ محض چند افسوسناک واقعات کا سلسلہ نہیں بلکہ ایک گہری سماجی، نفسیاتی اور معاشی خرابی کی علامت ہے، جو نوجوانوں کے ذہنی استحکام کو اندر ہی اندر کمزور کر رہی ہے۔ آج یہ رجحان ایک خاموش وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے، جسے نہ صرف سمجھنے بلکہ روکنے کے لیے بھی سنجیدہ اور سائنسی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، دنیا بھر میں 15 سے 29 سال کے نوجوانوں میں خودکشی اموات کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے، اور ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ کیسز اُن ممالک میں سامنے آتے ہیں جہاں معاشی، سماجی اور نفسیاتی سہولیات ناکافی ہیں۔ گلگت بلتستان اور چترال جیسے خطے، جہاں جغرافیائی تنہائی، محدود تعلیمی وسائل اور ثقافتی دباؤ پہلے ہی موجود ہیں، وہاں نوجوانوں کی ذہنی صحت پر دباؤ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

نفسیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ڈپریشن، اینگزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر، خود ترسی، مایوسی، منشیات کا استعمال اور بچپن کے صدمات جیسے عوامل نوجوانوں کو جذباتی طور پر بے بس کر دیتے ہیں۔ ایسے افراد اکثر نیند، خوراک، توانائی اور جذباتی توازن میں شدید عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے لیے روزمرہ زندگی بوجھ بن جاتی ہے، اور وہ خود کو ناکامی یا بوجھ کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔ یہی احساسِ ناکامی انہیں خودکشی جیسے انتہائی اقدام کی طرف دھکیلتا ہے۔

سماجی سطح پر، خاندانی تنازعات، تعلیمی ناکامی، بے روزگاری، غربت اور مستقبل سے مایوسی نوجوانوں کی نفسیاتی کمزوری کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے اس مسئلے کو ایک نئے اور خطرناک رخ پر ڈال دیا ہے۔ گلگت بلتستان اور چترال میں بڑھتے ہوئے کیسز میں نوجوانوں کو بلیک میلنگ، جعلی تعلقات اور غیر اخلاقی مواد کے ذریعے ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔ یہ سائبر ہراسانی نہ صرف ان کی خود اعتمادی کو تباہ کرتی ہے بلکہ انہیں خوف، شرمندگی اور بے بسی کے دائرے میں قید کر دیتی ہے — جہاں سے نکلنے کا واحد راستہ انہیں اپنی زندگی ختم کرنا محسوس ہوتا ہے۔

تحقیقات کے مطابق، 2012 سے 2022 کے درمیان گلگت بلتستان کے تین اضلاع میں 340 خودکشی کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں اکثریت نوجوانوں اور خواتین کی تھی۔ 73 فیصد کیسز میں ذہنی دباؤ کو بنیادی وجہ قرار دیا گیا۔ ضلع غذر اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہے، جہاں صرف 2024 کے آغاز سے اب تک 46 سے زائد خودکشیوں کی اطلاعات ہیں۔ چترال میں بھی صورتحال مختلف نہیں، جہاں 2013 سے 2019 کے درمیان 176 افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ ان کیسز میں خواتین کی بڑی تعداد اس بات کا اشارہ ہے کہ معاشرتی دباؤ، خاندانی تنازعات اور صنفی امتیاز کس حد تک ذہنی صحت پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

نوجوانوں میں خودکشی سے قبل چند واضح علامات ظاہر ہوتی ہیں، جنہیں بروقت پہچان کر قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ ان میں ناامیدی، خود کو بے وقعت سمجھنا، سماجی تعلقات سے کنارہ کشی، دلچسپیوں کا خاتمہ، نیند اور خوراک میں تبدیلی، اور خودکشی سے متعلق بار بار بات کرنا شامل ہے۔ اگر کوئی نوجوان ماضی میں خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر چکا ہو، تو یہ خطرے کی سب سے نمایاں علامت ہے۔

اس بحران کا مقابلہ محض افسوس یا مذمت سے نہیں بلکہ منظم اور سائنسی بنیادوں پر کرنا ہوگا۔ ذہنی صحت کو صحت عامہ کا لازمی جزو بنانا ناگزیر ہے۔ تعلیمی اداروں میں نفسیاتی مشاورت، آگاہی پروگرام، اور ہیلپ لائنز کا قیام ضروری ہے تاکہ نوجوان اپنی بات کھل کر بیان کر سکیں۔ والدین اور اساتذہ کو تربیت دی جائے کہ وہ خطرے کی ابتدائی علامات کو پہچان سکیں اور بروقت مدد فراہم کریں۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر قابو پانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ بلیک میلنگ یا ہراسانی کے شکار نوجوان قانونی اور نفسیاتی مدد حاصل کر سکیں۔

حکومت کو بھی نوجوانوں کے لیے تعلیم، روزگار اور معاشی تحفظ کے بہتر مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ اپنے آپ کو بامقصد اور بااختیار محسوس کریں۔ نوجوانوں کی ذہنی صحت میں سرمایہ کاری دراصل ایک صحت مند، پرامن اور مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے۔

خودکشی کسی ایک فرد کا ذاتی سانحہ نہیں بلکہ اجتماعی ناکامی کا اظہار ہے۔ گلگت بلتستان اور چترال جیسے حساس خطے اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم بطور معاشرہ نوجوانوں کو سنیں، سمجھیں اور انہیں وہ نفسیاتی تحفظ فراہم کریں جس کے وہ حقدار ہیں۔ اگر ہم نے آج ان کے دکھ کو محسوس کر کے بروقت اقدام نہ کیا تو آنے والا کل ہمارے نوجوانوں سے خالی ہوتا جائے گا۔ امید، ہمدردی اور پیشہ ورانہ رہنمائی کے ذریعے ہم ان دلوں میں زندگی کی خواہش واپس جگا سکتے ہیں، کیونکہ ہر بچائی گئی جان، دراصل انسانیت کی بقا کی ایک نئی امید ہے۔

کالم نگار اقبال عیسیٰ خان, بزنس کنسلٹنٹ اور اسٹریٹیجک ایڈوائزر ہیں، جنہوں نے Hilal Foods Pvt Ltd، NovelOPS Pvt Ltd، SATs، Unilever Pakistan Limited، DNG سمیت متعدد قومی و بین الاقوامی کمپنیوں میں کلیدی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ وہ “Develop N Grow International” اور “Toursity” کے بانی ہیں، اور گلگت بلتستان سمیت قومی سطح پر مختلف سماجی و فلاحی تنظیموں کی قیادت کر رہے ہیں۔ آپ اعزازی طور پر “شناکی ملٹی پرپز کوآپریٹو سوسائٹی” کے صدر اور “ہنزہ گلگت سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن” کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں

زر الذهاب إلى الأعلى
Ads Blocker Image Powered by Code Help Pro

Ads Blocker Detected!!!

We have detected that you are using extensions to block ads. Please support us by disabling these ads blocker.

Powered By
100% Free SEO Tools - Tool Kits PRO