دھڑکنوں کی زبان…..ہم’’یوم دفاع ‘‘نہیں’’لمحہ دفاع‘‘مناتے ہیں

’’اپنی اخری استطاعت کے مطابق طاقت حاصل کرو۔اپنے گھوڑوں کو موٹا تازہ کرو تاکہ تم اپنے اور خدا کے دشمنوں کو خوف زدہ کرسکو‘‘یہ قرآن کے الفاظ ہیں۔فخر موجوداتؐکے استانہ مبارک میں شاید کھانے کو کچھ نہ ہوتا مگر گھر میں تلواریں لٹک رہی ہوتیں۔برق رفتار گھوڑا اصطبل میں کھڑا رہتا۔رزم حق وباطل ایک کشمکش ہے اور کائنات کے وجود کی نشانی ہے اگر باطل کا وجود نہ ہوتا تو حق کی تعریف کیا ہوتی۔خدائے لم یزل اپنی قدرت سے باطل کا وجود ختم کرسکتا ہے۔مگر اس کشمکش کو مردان حق پر چھوڑ کر ان کا مقام متعین کیا ہے۔بحیثیت قوم ہم مسلم اُمہ کا حصہ ہیں اس لئے ہمارے حصے میں بھی باطل سے ٹکرانا آتا ہے۔ہم رزم حق وباطل میں آزمائشوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔جس قوم سے ہمارا ہمیشہ واسطہ پڑا ہے وہ شوق سے مارنے پر تلتی ہے مگر مار کھاکر خاموش ہوجاتی ہے۔وہ محمد بن قاسم سے لے کرآج تک بار بار اس کا تجربہ کرچکاہے۔بلبن،قطب الدین ایبک،التمش،غوری،محمود غزنوی پھر کون کون آگ اور خون اور جنون کے اس کھیل کا تماشا دیکھ چکے ہیں۔عجیب فطرت ہے ہمسایے کی بھی۔۔۔۔ہم پر چار چار جنگ مسلط کیا۔۔۔ہم بحیثیت آزاد قوم اپنے یادگار دن مناتے رہتے ہیں اب بھی منارہے ہیں مگر یوم دفاع پاکستان اپنی الگ ایک حیثیت رکھتا ہے۔اس لئے کہ بھی ہم نے اپنی حیثیت ،اپنی انفرادیت اور اپنی جوانمردی دیکھائی تھی۔ہم موت کی طرف آگے کودوڑے تھے ہم نے حق کی جنگ لڑی تھی۔ہم نے شہادت کو گلے لگایا تھا۔چشم فلک نے اس سینے سے فوارہ بنتا خون دیکھا تھا جس پہ پہلی گولی لگی تھی۔چشم فلک نے توپوں کی گھن گرج میں قلا بازیاں کھاتے ہوئے ان شیروں کو دیکھا تھا۔جو مٹھی بھر تھے مگر سیسیہ پلائی ہوئی دیوار تھے۔چشم فلک نے وہ’’نعرہلاتذر‘‘دینے والوں کو دیکھا تھا۔جشم فلک نے اپنے جہاز کے کاک پِٹ میں داخل ہوتے ہوئے ان پائلٹوں کو یہ دعا کرتے ہوئے دیکھا تھا کہ اے اللہ ہمیں’’ شہادت ‘‘سے سرفراز فرما۔چشم فلک نے جرنیلوں کو مورچوں میں آتر کر بندوق چلاتے ہوئے دیکھا۔چشم فلک نے اپنے جوان پاک سینوں سے بم باندھ کر موٹر سائیکلوں میں دشمن کے ٹینکوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔چشم فلک نے سمندر کی لہروں کو داد شجاعت دیتے ہوئے دیکھا تھا۔چشم فلک نے ماؤں کو سجدوں میں روتی ہوئی دیکھا تھا۔چشم فلک نے بزرگوں کو گڑگڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔پوری قوم کو لوہے کی دیوار ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔چشم فلک نے یہ بھی دیکھا تھا کہ یہ لوگ زندگی سے زیادہ موت سے محبت کرتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ آج یہ قوم ’’یوم دفاع‘‘کیوں منارہی ہے؟اس کو چاہیئے کہ’’لمحہ دفاع‘‘منائے۔اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ امانت ہے۔اور حق کے لئے میدان میں اُترنا اس کی صفت ہے۔اس کی زندگی میں سالوں،مہینوں،ہفتوں ،دنوں کی نہیں لمحوں کی اہمیت ہے۔یہ لمحوں کو اہمیت دینے والے لوگ ہیں۔یہ ’’دفاع‘‘ہی کی پوزیشن میں ہیں۔یہ ماضی میں جتنا دیھمے جائیں اتنا ان کا معیار بڑھتا ہے۔اتنا یہ آگے کو مہمیز لگاتا ہے۔ان کا ایک قدم سالوں کا فاصلہ طے کرکے کرتا ہے۔جس اُمت سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔چشم فلک نے دیکھا تھا کہ اس اُمت کی ابیاری صرف23سالوں کی قلیل مدت میں ہوئی۔پھر ساری دنیا کے ایوان باطلاں میں ہلچل ہوئی۔طاقتیں سرنگوں ہوئیں۔بہادروں نے گھٹنے ٹیک دئے۔سپر پاؤر لرزہ برآندام ہوئے ۔یہ ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں ہوتاہے۔وہ’’یوم‘‘کیا منائے وہ زمین میں پھیلتا ہوا حق کا طوفان ہے۔وہ موج پہ آئے تو تو اس کے سامنے کوئی ٹِک نہیں سکتا۔اس نے اگر بہادری نہ دیکھائی تو اس کے ساتھ توہین ہے۔اس لئے وہ شجاعت کی داستان ہی رقم کرتی ہے۔یہ ہما وقت جاگتا ہوا شیر ہے۔جوکھچار میں کسی طوفان کے انتظار میں کھڑا رہتا ہے۔کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ یہ’’دن‘‘مناتا ہے۔یہ تو لمحے گنتا ہے۔یہ فرد نہیں قوم نہیں ایک جذبہ ہے یہ ایک عظیم’’جذبے‘‘کانام ہے۔یہ جذبہ اس جوان کے دھڑکتے دل سے پوچھو جو رات گئے اپنی سرحدپہ کھڑا رہتا ہے۔یہ جذبہ اپنی کاک پٹ میں بیٹھے فضا میں قلابازیاں کھاتے ہوئے اس شاہین سے پوچھو جس کا خون مستی میں کھو ل اُٹھتا ہے۔یہ جذبہ کسی شہید کی تربت پہ اس کے سرہانے کھڑے ہوکر ملاخذہ کرو۔یہ جذبہ کسی سائنسدان کی آنکھوں سے پوچھو جس میں کلمہ توحید اُتر آتی ہے۔یہ جذبہ اس جوان کی ماں کی گود میں موجود خوشبو سے پوچھو جو اس جوان کی سانسوں میں پھیلتی ہے۔یہ عجیب چاند سے پوچھو۔جو ان شیروں کاگواہ ہے جو جاگ رہے ہیں۔یہ جذبہ ان ستاروں سے پوچھو جن کے ہمسایے پلٹتے چھپٹتے ہیں۔یہ’’جذبہ‘‘ اس قوم کو’’دن‘‘نہیں’’لمحہ‘‘منانے کی دعوت دیتا ہے۔یہ ’’جذبہ‘‘ اس کو بے چین رکھتا ہے۔اگر یہ’’ جذبہ‘‘’’موت‘‘بن جائے تو’’شہادت‘‘ہے۔اگر’’زندگی‘‘بن جائے تو’’شہادت‘‘ہے احساس بن جائے تو’’صداقت‘‘ہے الفاظ بن جائے تو’’بے باکی ‘‘ہے۔کردار بن جائے تو’’خودی‘‘ہے۔منزل بن جائے تو اپنے رب تک کا راستہ ہے۔یہ قوم ’’یوم دفاع‘‘ نہیں ’’لمحہ دفاع‘‘ مناتی ہے۔یہ اس کی شان ہے۔کہ اس کا چمن ہرابھرارہے۔اس کی مٹی آزاد اور پاک رہے۔اس کے ایوانوں میں خوشیاں ہوں۔ان کی عبادت گاہوں سے اللہ کی آواز آئے۔ان کی گلی کوچوں سے امن کی خوشبو آئے۔یہ اس کی شان ہے۔کہ اپنی طرف اُٹھتی ہر نظر کا ملاحذہ کرتی ہے کہ وہ ’’میلی‘‘تو نہیں اگر’’میلی‘‘ہے تو وہ آنکھ نکال دیتی ہے۔اگر ’’سچی‘‘ ہے تو اس میں محبت بھردیتی ہے۔یہ وہ قوم ہے جس کی مثال چشم فلک نے نہیں دیکھا۔یہ واحد زندہ قوم ہے جو رات کو سوتی ہے دن کو جاگتی ہے۔اس کی صبحیں اللہ کے نام سے پھوٹتی ہیں۔اس لئے ہمہ وقت جاگتی قوم ’’یوم‘‘نہیں’’لمحہ‘‘مناتی ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔