داد بید اد ….اقوام متحدہ میں وزیراعظم کا خطاب
…..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ ….
30 ستمبر کو اقوام متحدہ میں وزیر اعظم کاخطاب ایک متوازن اور حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ خطاب تھا سفارتی اداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس میں تلخ وترش مواد بھی شامل تھا اور نئے واقعات کے تناظر میں شیر ین سختی اور نرم گفتاری کا مظاہر ہ بھی کیا گیا سال میں ہر ملک کے سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا موقع ملتا ہے یہ رسمی تقریر ہوتی ہے تاہم اس تقریر کا تاثر بہت گہر ا ہوتا ہے اس تقریر سے خارجہ پالیسی کا رخ کا پتہ لگتا ہے اور مستقبل کے راستے کا تعین ہوتاہے وزیراعظم نے اپنی تقریر میں چین ،روس اور امریکہ سمیت تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ بہتر تعلقات کا عند یہ دیا ایران اور امریکہ کے درمیان جوہر معاہدے کا خیر مقدم کیا اور پاکستان کو شنگھا ئی تعاؤن تنظیم کا مکمل ممبر بنانے کے عزم کا اظہار کیا وزیراعظم نے ا پنے خطاب میں اقوام متحدہ کی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کی مثال دی جو 67 سالوں سے عالمی تنظیم کے ایجنڈے پر ہے سلامتی کونسل کی دوقراردیں موجود ہیں اب تک ا ستصواب رائے نہیں ہوا کشمیری اب بھی حق خود ارادی کے منتظر ہیں حالانکہ یہ حق ان کو 1948 میں ملنا چاہیے تھا وزیر اعظم نے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے چار اہم تجاویز پیش کیں،سیاچن سے فوجوں کا غیر مشروط انخلاء ،کشمیر سے بھارتی فوجوں کا انخلاء ،پاکستان میں دہشت گرد کا روائیوں کا خاتمہ اور کنٹرول لائن پر فائر بندی کے معاہدے کی پاسدای۔ وزیراعظم نے کہا کہ خطے میں قیام امن کے لئے ان اقدامات کی بنیادی اہمیت ہے لیکن ہمارا اولین پڑوسی خطے کے اندر بھی اور پاکستان میں بھی امن نہیں چاہتا وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کی عمارت پر پہلی بار فلسطین کی آزاد ریاست کا پرچم لہرانے کی اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے اقوام عالم کو خراج تحسین پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ دنیا کے تمام خطوں میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک ختم ہوناچاہیے اپنے خطاب میں وزیراعظم نے افغانستان میں مفاہمتی عمل کے اندر پاکستان کے کردار کا ذکر کیا اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی بے مثال قربانیوں کا حوالہ دیا مجمووی طور پر وزیراعظم پاکستان کے خطاب کے متوازن قرار دیا جارہا ہے تاہم اس پر بھارت کا ردعمل ابھی تک نہیں آیا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اقوام متحدہ میں تقریر کر نیگے تو پتہ لگے گا کہ دوسری طرف سے کس قسم کا ردعمل آتا ہے
مرزا اسد اللہ غالب نے کہا تھا
قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھ ینگے جواب میں
نریند ر مودی کا موڈ مفاہمت والاموڈہر گز نہیں اس لئے بھارت کے اندر مودی کو ’’موڈی ‘‘ کہا جاتاہے انہوں نے الیکشن مہم میں بھی جنگ اور بدامنی کے بخار کو بلند یوں پر چڑھا کرووٹ حاصل کئے تھے اگر کہا جائے کہ ان کاووٹ بینک مسلمان مخالف ووٹ بینک ہے تو بے جانہ ہوگا ایسے میں ایک با رپھر فرمودہ غالب یا د آتا ہے
وہ اپنی خونہ بدلیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
اگر چہ جنرل اسمبلی کے پاس دنیا میں قیام امن کے حوالے سے خصوصی اختیارات نہیں ہیں تاہم جنرل اسمبلی عالمی تنظیم میں اصلاحات کے عمل میں کردار ادا کرسکتی ہے اس وقت جنرل اسمبلی کے سامنے سلامتی کونسل میں توسیع کا مسئلہ زیر غور ہے پاکستان نے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد میں ممکنہ اضافے کی اصولی طور پر مخالفت کی ہے پاکستان کا موقف یہ ہے کہ جب تک سلامتی کونسل کے مستقل ممبروں کے پاس ویٹو کا حق ہے یہ حق سلامتی کونسل کو غیر جمہوری ادارہ بنا دیتا ہے اور کونسل کا مستقل ممبر اپنی من مانی کر تا ہے وزیر اعظم نے یہ بات شوگر کو ٹیڈ اسلوب میں سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے کہی وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد میں اضافے کا کوئی فائد ہ نہیں ہوگا جب سلامتی کونسل کو جمہوری انداز میں کام کرنے نہیں دیا جائے گا تب تک یہ بڑی طاقتوں کا کلب ہی رہے گا اس کلب میں توسیع سے عالمی امن کو فائد ہ نہیں ہوگا گھما پھر ا کے بات وہیں آجاتی ہے کہ بھارت ویٹو پاوراپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے بھارت کو ویٹو پاور مل گیا تو صرف پاکستان کو نہیں ،بلکہ تما م پڑوسی ممالک مثلاً نیپال ،بھوٹان ،سری لنکا ،مالدیپ ، میا نمر اور بنگلہ دیش کو بھی نقصان ہوگا تمام ہمسایہ ممالک سیکورٹی کے سنگین مسائل سے دوچار ہوجائینگے الغرض عالمی فورم پر پاکستان کے وزیر اعظم کی تقریر جامع ،متوازن اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھی۔ فرمودہ اقبال بھی اس حوالے سے خاصا مشہور ہے
من ازین بیش ندانم کہ کفن درذے چند
بہر تقسیم قبور انج منے ساختند