صدا بصحرا …….مودی ، غنی بھائی بھائی

……….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ ……….
کابل میں قدیم محل دارلا مان کی از سر نو تعمیر اور تزین و آرائش کے بعد نئے محل کا افتتاح ہوا افتتاحی تقریب میں بھارتی وزیراعظم نر یندا مودی نے ویڈیو لنک کے ذریعے نئی دہلی سے خطاب کیا اپنے خطاب میں بھارتی وزیر اعظم نے مودی ، غنی بھائی بھائی کا دلچسپ نعرہ لگا یا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ افغانستان کی تعمیر نو میں بھارت افغان بھائیوں کا ساتھ دیتا رہے گا جوابی تقریر میں افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے دار لا مان کے تاریخی محل کی تعمیر میں مالی مدد دینے پر بھارتی وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بھارت اور افغانستان کا باہمی تعاؤن مثالی ہے اور یہ تعاؤن جاری رہے گا بھارت ہمارا مخلص دوست ہے جس پر ہم نے ہر دور میں اعتبار کیا اور بھارت کو پُر خلوص دوست پا یا گذشتہ 6 مہینوں کے اندر یہ تیسرا بڑا واقعہ ہے اس سے قبل بھارتی حکومت کے تعاؤن سے ہرات میں سلمی ٰ ڈیم کی تعمیر مکمل ہو ئی کا بل میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا دونوں مواقع پر افغانستان اور بھارت کی گہری دوستی کا راگ پورے زور اور پوری شد و مد کے ساتھ الا پا گیا اگر پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کا ریکارڈ نکال کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اور افغانستان کی دوستی کو پاکستان اور چین کی دوستی کے مقابلے میں لایا جارہا ہے وہی بیا نیہ دہرایا جارہا ہے چین جس طرح پاکستان کے ساتھ تعاؤن کر تا ہے بھارت اُسی انداز میں افغانستان کے ساتھ تعاؤن کررہا ہے بھارت اور افغانستان کے تعاؤن کی تاریخ 1947سے شروع ہوتی ہے 1947 میں قیام پاکستان کو بھارت نے بھی تسلیم نہیں کیا افغانستان نے بھی تسلیم نہیں کیا جب تک ظاہر شاہ کی حکومت رہی افغانستان ہمارا دشمن رہا او ر شاہ کی معزولی کے بعد سردار داود نے پرانی پالیسی اپنائی اُس دور میں ذولفقار علی بھٹو نے انجینئر گلبدین حکمتیاراور ان کے ساتھیوں کو پاکستان میں پناہ دی اس کے جواب میں کابل حکومت نے پشاور میں کئی بم دھما کے کروائے پی آئی اے بلڈنگ ، اور ہسٹری ڈیپارٹمنٹ پشاور یونیورسٹی کے دو دھما کے بھی اُسی دور میں ہوئے یہ تاریخ کا حصہ ہے 1978 ؁ء کا ثور انقلاب افغانستان اور پاکستان کی دوستی کا ایک نادر اوراہم موقع تھا امریکہ نے اپنے مفادات اور ویت نام کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے پاکستان کواستعمال کیاہماری حکومت نے بلا سوچے سمجھے امریکی کشتی میں سوار ہو کر یہ موقع گنوادیا نور محمد ترہ کئی ، حفیظ اللہ امین ، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ پاکستان کے بہترین دوست ثابت ہوسکتے تھے افغانستان کے عوام کی پاکستان کے ساتھ گہری دوستی استوار ہوسکتی تھی اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو نہ صرف افغانستان میں امن ہوتا بلکہ پاکستان میں بھی امن قائم رہتا پورے ایشیا ء میں امن قائم رہتا علامہ اقبال کا مشہور قطعہ ہے
آسیا یک پیکر آب و گِل است
افغان ملت در آں پیکر دل است
ازکشادِ او کشادِ آسیا
از فساد او فساد آسیا
مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ ایشیا پانی اور مٹی کا خوبصورت پیکر ہے اس پیکر کے اندر افغانستان کو دل کی حیثیت حاصل ہے افغانستان میں جب امن ہوگا پورا ایشیا ء امن کا گہوارہ بنے گا افغانستان میں اگر فساد ہوا تو پورا ایشیا فساد کی زد میں آئیگا امریکہ نے علامہ اقبال کے اس قطعہ سے پورا فائد ہ اُٹھا یا اُس نے ایشیا میں فساد کا بیچ بو نے کے لئے افغانستان کی زرخیز مٹی کا انتخاب کیا اورپاکستان کو مزدور کے طور پر ساتھ ملایا فساد کی آگ بھڑ کا نے اورویت نام کی شکست کا بدلہ لینے تک مزدور کو ساتھ رکھا جب مقصد حاصل ہوا تو پہلے جنرل ضیا ء الحق اور 29 اہم فوجی حکام کو آموں کی پیٹی میں بم رکھ کر فضا میں شہید کر وادیا پھر پاکستان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کر دیا 1988 ؁ء سے اب تک امریکہ مسلسل پاکستان کو توڑنے کی سازشیں کر رہا ہے اس کام میں امریکہ کو بھارت اور افغانستان کی کھلم کھلا حما یت حاصل ہے امریکہ نے ایک جامع پالیسی کے تحت افغانستان کے اندر بھارت کے 12کونسل خانے قائم کئے بھارت کو بڑے بڑے تعمیراتی کاموں میں شریک کیا فاٹا ، بلوچستان ، کراچی اور گلگت بلتستان میں دہشت گردی کے لئے بھارت کا تعاؤن حاصل کیا اور یہ سلسلہ اب مودی غنی بھائی بھائی کی صورت اختیار کر چکا ہے آئیندہ 5 سالوں میں نورستان ، کنٹر اور ننگر ہار میں دریا ئے باشگال اور دریا ئے چترال پر 4 ڈیموں کی تعمیر زیر غور ہے اس کام میں بھارت اور امریکہ کو تجربہ بھی حاصل ہے بھارت نے عالمی بینک کی مدد سے مشرقی دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کے پانی پر قبضہ کیا ہے اب افغانستان کے اندر آبی دہشت گردی کے ذریعے ورسک ڈیم کو خشک اور پشاور کی وادی کو بنجر میں تبدیلی کر نا چاہتا ہے اس کام میں بھارت کو عالمی بینک اور امریکی حکومت کی بھر پور تعاؤن حاصل ہے اس لئے مودی غنی بھائی بھائی کا نعرہ لگا یا جارہا ہے اور یہ موجودہ دور کی بہت بڑی حقیقت ہے ۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔