دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔پرنسپل ناصر اللہ ۔۔۔۔۔
مجھے ہاٸیر سکینڈری سکول شاگرام میں پرنسپل حفیظ الدین صاحب اور پرنسپل ناصر اللہ صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ۔پرنسپل حفیظ صاحب سیدھے سادھے آفیسری کے پروٹوکول سے بے خبر انسان ہیں ان کو کبھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کے پاس بڑی کرسی ہے اختیارات ہیں پروٹوکول ہے وہ بھولے بھالے ہیں ان پہ رشک آتا ہے انسان کے بڑے پن کے لیے یہی کافی ہے ۔۔۔۔۔۔ناصر اللہ صاحب ریٹائرہوچکے ہیں جب ان کے ہاٸر سکینڈری سکول سے ٹرانسفر کا وقت آیا تو جی چاہا کہ ان کے اعزاز میں چھوٹی سی تقریب سجاٸی جاۓ ان کی خدمات کوسراہا جاۓلیکن ایسا نہ کر سکا ۔۔ناصر اللہ صاحب محکمہ تعلیم کے فعال آفیسرتھے بڑےزیرک، معاملہ فہم اور ذہین ہوا کرتے تھے ۔کام نکالتے دقت سنبھالتے اور آگے بڑھتے ۔وہ صبرو برداشت کے ایک چٹان تھے ۔صابر شاکر اور محنتی تھے ۔ساٹھ سال پہلے فروری کے مہینے میں تورکھو ورکہوپ کے خوبصورت گاٶں زندروڑی میں پیداٸش ہوٸی آپ کا گھرانہ مہمان نوازی اور خدمت میں مثال تھا اس مجبوری کے دور میں لوگوں کی خدمت ہوتی پیدل مسافروں کے دانہ پانی کا اور رات گزارنے کا بندوبست ہوتا آپ کے ابو علم دوست تھے بڑے بھاٸی محمد سعید استاذ محکمہ تعلیم میں ایک کردار کے طور پر یاد کیا جاۓ گا آپ نے اساتذہ اسوسی ایشن کی کئی سال تک صدارت کی اور کئی نمایان خدمات سرانجام دی آپ کےسارے بھاٸی اعلی تعلیم یافتہ اور اچھے عہدوں پہ فاٸز رہے ہیں ناصر اللہ صاحب نے کالج پڑھا اور پیٹی سی استاذ بن گیا تعلیم اور کامیابیاں جاری رہیں ترقی کرتے کرتے اٹھارہ گریٹ کا پرنسپل بن گیا دفتر میں کئی انتظامی امور پر رہا بڑے سکولوں میں بطور پرنسپل رہا اور آخر فروری 2023 کو ہاٸر سکینڈری سکول موری لشٹ سے پرنسپل کےعہدے سے ریٹاٸر ہوۓ ۔پرنسپل ناصر اللہ صاحب سے
بطور سٹاف ممبر چند ماہ کی رفاقت رہی ۔میرے ابو کے چہیتے شاگرد رہے تھے بڑا احترام دیتے تپاک سے ملتے صبح جب ناصر صاحب کی گاڑی آتی تو بزلہ سنجی اور گفتگو کے شگوفے ساتھ آتے ۔ساتھی گول داٸرہ بنا کے کرسیاں ڈال کے بیٹھتے اور محفل زعفران زار ہوتی ۔آپ کے پاس تجربہ گزری سروس کی یادیں اور تلخ و شیرین دنوں کا ایک خزانہ تھا ۔بڑا نرم مزاج ہوا کرتے تھے ہنستے ہنساتے اور کام کراتے ۔ساتھیوں کا احترام کرتے ان کی مجبوری میں ان کا دایاں بازو بن جاتے ۔سکول کا زمانہ اور معاشرتی حالات یاد کرتے وہ بڑے شاکر اور خدا پرست واقع ہوۓ تھے شب زندہ دار تھے کبھی تہجد کی نماز تک فوت نہیں ہوٸی صبح کی معمولات باقاعدہ تھے ۔مجبوروں اور لاچاروں کی ٹوٹ کر مدد کرتے ۔بڑے خوش خوراک واقع ہوۓ تھے دعوتیں اڑاتے ساتھیوں سے کہتے کہ یہ بھی ادھی زندگی ہے آپ کی زندگی بھر پور تھی گاٶں میں جاٸیدادیں اور چترال شہر میں گھر بنا چکے تھے موسم کے پیش نظر اکثر شہر میں ہوتے ۔وہ ساتھیوں کی صلاحیتوں کا معترف تھے سب کو ان کا درست مقام دلا دیتے اوران کے کام کی قدر کرتے ۔زندگی سے بھر پور فاٸدہ اٹھاۓ تھے بہت ساری کامیابیاں حاصل کی تھی اس لیے مطمٸن تھے ۔ناصر اللہ صاحب اب آرام سے گھر جابیٹھے ہیں لیکن ان کی معلمی اور آفیسری کی خوشبو آتی ہے ان کے شاگرد ان کو یاد کرتے ہیں ان کے ساتھی ان کو بھولے نہیں ان کی شگفتہ مزاجی کی کہانیوں سے یہ ادارے بھرے پڑے ہیں اللہ ان کو لمبی عمر اور اچھی صحت سے نوازے