
مولانا قاضی نثار احمد: گلگت بلتستان میں امن و اتحاد کے سفیر :تحریر: قاری فیض اللہ چترالی
مولانا قاضی نثار احمد گلگت بلتستان اور کوہستان کے سب سے مقبول، بااثر اور معتبر مذہبی رہنما ہیں۔ وہ اہلسنت والجماعت گلگت بلتستان کے امیر، مرکزی جامع مسجد گلگت کے خطیب اور اس سے ملحقہ عظیم دینی درسگاہ کے مہتمم ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ گلگت بلتستان طویل عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی اور حساس مذہبی صورتحال سے دوچار رہا ہے۔
وقتاً فوقتاً شیعہ سنی تناؤ کے نتیجے میں فسادات پھوٹ پڑتے ہیں جن سے پورے خطے کا امن متاثر ہوتا ہے۔ ایسے نازک حالات میں مولانا قاضی نثار احمد جیسے متوازن، صلح جو اور امن پسند رہنما کا وجود بلاشبہ خطے کے استحکام اور اتحاد کے لیے غنیمت ہے۔ جب بھی علاقے میں حالات سنگین رخ اختیار کرتے ہیں، قاضی صاحب اپنی بصیرت، دینی فہم اور صلح جویانہ مزاج سے حالات کو سنبھالنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ امن، بھائی چارے اور برداشت کا پیغام دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام الناس ان پر گہرا اعتماد رکھتے ہیں۔ ایسی شخصیات قوم و ملت کے لیے باعثِ رحمت اور امن کی ضامن ہوتی ہیں۔ ان کی قدر کرنا اور ان کا تحفظ یقینی بنانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے، کیونکہ دشمنانِ دین و ملت ہمیشہ ایسی شخصیات کو نشانہ بنا کر ملک و قوم کے امن و استحکام کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے حال ہی میں مولانا قاضی نثار احمد پر ایک سفاکانہ حملہ کیا گیا۔ جب وہ اپنے گھر سے مدرسے کی جانب روانہ تھے تو دہشت گردوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر کر اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ حملہ آوروں نے اپنے ناپاک عزائم کے تحت ہر ممکن کوشش کی کہ قاضی صاحب کو شہید کر دیا جائے، مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے۔ ربِ کریم نے اپنے فضل و کرم سے انہیں محفوظ رکھا، اور یہ آتشِ نمرود ان کے لیے گلزار بن گئی۔ قاضی صاحب معمولی زخمی ہوئے، مگر حملہ انتہائی سنگین نوعیت کا تھا۔ قاضی صاحب کے باڈی گارڈز نے جس جرات، ہوشیاری اور جانفشانی سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا، وہ قابلِ داد و تحسین ہے۔ ان کی بہادری نے نہ صرف قاضی صاحب بلکہ پورے خطے کو ایک بڑے سانحے سے بچا لیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی کی حفاظت فرماتا ہے تو پوری دنیا کی سازشوں کے باوجود کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
چند روز قبل میں اسکردو کے سفر پہ تھا، وہاں سے فارغ ہوکر میں نے قاضی صاحب کی عیادت کے لیے گلگت کا رخ کیا۔ عشا کے وقت ان کے دولت خانے پر حاضری دی۔ الحمد للہ قاضی صاحب مکمل صحت یاب ہیں، محبت کرنے والوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور پورے حوصلے اور عزم کے ساتھ اپنی مصروفیات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میرا قاضی صاحب سے نیازمندی کا تعلق بہت پرانا ہے۔ 1983ء میں وہ اپنے ایک عزیز کے ہمراہ کراچی تشریف لائے اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں تعلیم کا آغاز کیا۔ انہوں نے درجہ اولیٰ سے لے کر تکمیلِ درسِ نظامی تک یہیں تعلیم حاصل کی۔ اپنی محنت، خلوص اور سعادت مندی سے اساتذہ کرام کے دل جیت لیے اور اکابر کے منظورِ نظر ٹھہرے۔ مولانا قاضی نثار احمد نہ صرف ایک جید عالمِ دین ہیں بلکہ صاحبِ نسبت بزرگ بھی ہیں۔ انہیں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ سے چاروں سلاسل میں اجازت و خلافت حاصل ہے۔ وہ شب زندہ دار، متقی، اور اصلاحِ امت کے لیے ہمہ وقت مصروف بزرگ ہیں۔ گلگت بلتستان کے دینی و سماجی معاملات میں ان کی رہنمائی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا قاضی نثار احمد کی حفاظت فرمائے، اور ان کی دینی و ملی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول و مقبول فرمائے۔ آمین۔
