(بے حسی)

………………..تحریر : اقبال حیات ؔ آف بر غذی ………….
یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب تا تاریوں نے بغداد پر یلغار کی اور کثت و خون بر پا کئے اسی دوران ایک تا تاری ایک مقامی شخص کو نیچے پچھاڑنے کے بعد ذبح کرنے کے لئے چھری نکالتے ہیں ۔ وہ چھری کند ہونے کی وجہ سے کام نہیں دیتی تو تاتاری چھری پھینک کر اس شخص سے یہ کہتے ہوئے جاتے ہیں ۔ کہ میں تیز چھری لیکر آنے تک تم ہلنے کی کوشش نہ کر نا کافی عرصہ بعد چھری لیکر جب تا تاری آتے ہیں ۔ تو اس شخص کو اسی حالت میں ہی پڑے ہوئے پاتے ہیں ۔
یہی کیفیت آج من حیث القوم چترال کے با سیوں کی ہے ۔ ہماری راتیں تاریکی اور دن مہنگا ئی کی عفریت سے دوچار ہیں ۔ دو سو روپے کی مرغی کیلئے چار سو روپئے تقاضا کر نے پر بلا چون و چرا شکرئے کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔ گیس کی قیمت کے بارے میں لب کشائی کی زحمت نہیں کرتے ۔ ندی نالوں میں گنگناتے پانی کی بہتات اور چترال کے سینے پر موجیں مارتا ہوا سمندر اپنی نا قدری پر نوحہ کنان ہیں ۔ 1974میں دو میگاواٹ کی بجلی جگنو کی کیفیت سے دوچار ہے اور بجلی کے بل بدستوربروقت پر ادا کرتے ہیں ۔ ریشن ہائیڈل پاور سٹیشن سیلاب برد ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت گیا ۔اور اس کے ہزاروں صارفین لا لیٹن کی روشنی پر خاموشی سے اکتفا کر رہے ہیں ۔ گولین گول میں دو میگاواٹ بجلی چھ مہینوں کے اندر مکمل کر نے کے دعوے کئے گئے اور اسکی تصوراتی تقسیم کی لائنیں بھی بچھائی گئیں مگر ایک سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اس اس کا تذکرہ بھی ہماری فطرت کے مطابق خاموشی میں ڈھل گیا مستوج روڈ انسانی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ٹوٹ پھوٹ کے شکار اس سڑک پر چلنے والی گاڑیاں کھڈوں کے گرد گھوم کر پاکستان سے ہماری و الہانہ محبت کی صداقت کا ثبوت فراہم کر تی ہیں ۔ چترال کے اندر ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی دور کرنے کے لئے ہمارے حصے کی پوسٹیں کوئی اور لے جاتے ہیں ۔ اور ہم صحت کی بنیادی سہولت کی فراہمی کے حق سے بھی بحیثیت شہری آگاہ نہیں اور امراض کی تشخیص کے لئے درکار آلات جدیدہ کے ناموں سے بھی بے خبر ہیں ۔
ان تمام حالات کو ہم شرافت کا لباس فاخرہ زیب تن کر کے بر داشت کرنے اور حق کے حصول کی طلب کو اس لباس پر داغ کے مترادف سمجھنے کے عادی ہیں ۔ اور اس ضمن میں ہمارے نمائندوں کا کردار بھی ہمارے مزاج سے مماثلت رکھنا یقینی امر ہے ۔ وہ حقیقتاََ اپنی اور اپنی اولاد کی دنیا سنوارنے کی فکر کے عارضے سے دوچار ہوتے ہیں ۔ اور علاقے کے عوام کو درپیش مسائل اور معاملات کے بارے میں انہیں سوچنے کے لئے وقت ہی نہیں ملتا ۔ اور دوسری جانب ہمارے ارباب اقتدار چترال کی فضاؤں میں محو پر واز رہنے اور تھوڑی دیر کے لئے یہاں کے پر تعیش اقامت گاہوں میں گزارنے کو چترال کا دورہ قرار دیکر احسان جتاتے ہیں ۔ اگر ہاتھی کے کان میں سونے کی یہ عادت ہم سے چھوٹ نہ جائے تو لوگ موٹروے کی سہولتوں سے بھی آگے نکل جائینگے اور ہم پگڈنڈیوں پر شرافت کی لاٹھی کے سہارے چلنے کی حالت پر بھی اُف تک نہ کہنے کی اپنی روایت کا خمیازہ بھگتتے رہینگے ۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے ۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال خود اپنی حالت آپ بدلنے کا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔