دیوانوں کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( تاریخی تھمپوق ، گیند لاپتہ ، ایک گول کی برتری )

………….تحریر: شمس الحق قمر ؔ گلگت…………..

چترال میں کئی ایک شخصیات ایسی ہیں جنہیں اُن کی تمام تر خصوصیات کے ساتھ اگر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ شاید دنیا کی مشہور شخصیات کی صف اول میں شامل ہوں ۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ایک نام غلام قادر کا بھی ہے ۔ غلام قادر، المعروف ٹھیکہ دار میکی سب ڈویژن مستوج کی وہ شخصیت ہیں کہ جنہیں اگر اس علاقے کا نگینہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ آپ کی وجہ شہرت آپ کی قادر الکلامی اور چوگان بازی ہے ۔آپ کی گفتگو میں آپ کی زبان سے جڑھنے والا ہر لفظ کچھ اس ادا سے ادا ہوتا ہے کہ سماعتوں میں مئے و انگبین کا سرور پیدا ہوجاتا ہے ۔ جملہ بازی اور جملہ سازی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ موضوع کتنا ہی خشک کیوں نہ ہو آپ کی زبان اُسے سامنے والے کی سماعتوں میں بلا کی مہارت سے چپکا دیتی ہے ۔ مختلف واقعات کے اختتام میں منطق ایسا پیدا کرتے ہیں کہ تمام مختلف واقعات کے قطع و برید میں کوئی نشیب و فراز نظر نہیں آتا ۔ قد کاٹھ بھی خالق نے ایسا عطا فرمایا ہے کہ کروڑوں میں بھی آپ یکتا نظر آتے ہیں ۔ آپ کے نیچے بڑے سے بڑاگھوڑا کھلونا نظر آتا ہے ۔ آپ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر جب جنالی ( پولوگرؤنڈ) میں داخل ہوتے ہیں تو جنالی کی شان و شوکت اور رونق میں اضافی شان پیدا ہوجاتی ہے ۔ موصوف چوگان بازی پورے خلوص کے ساتھ کچھ اس ادا سے کرتے ہیں کہ جیسے کوئی عبادت کر رہا ہو۔ یاد داشت اتنا مضبوط کہ زندگی کا ہر وقعہ یاد رہتا ہے ۔ آپ کے ساتھ ہر قسم کی گفتگو کا آغاز چوگان بازی ( استور غاڑ) سے ہی شوروع ہوتی ہے ، دین و دنیا کی تمام باتیں اگر چہ آجاتی ہیں تاہم ہر موضوع کسی نہ کسی طرح پولو سے مربوط ہوتی ہے یوں ہر گفتگو استورغاڑ سے شروع ہو کر استور غاڑ ہی پر منتج ہوتی ہے ۔
میں آپ حصرت کا بہت ہی قریبی ہمسایہ ہوں میں ہمسایگی کے اس رشتے کو اپنی قسمت کی یاوری سمجھتا ہوں ۔ میں جب بھی چھٹی پر گھر جاتا ہوں ، ملاقات کی سعادت مندی ضرور حاصل ہوتی ہے ۔ اس بار عید الفطر میں آپ ہمارے گھر تشریف لائے ۔ گفتگو کی شروعات پولو سے ہوئی ۔ چونکہ گزشتہ تین سالوں سے شندور پولو ٹورنامنٹ گلگت بلتستان اور چترال کے مابین متنازعہ صورت حال اختیار کر گیا ہے ۔ میں چونکہ گزشتہ اٹھارہ سالوں سے گلگت میں مقیم ہوں یعنی ایک طرح سے میں گلگت کا باشندہ ہوں لہذا میں جب بھی چترال کے کسی پولو کے کھلاڑ ی سے ملاقات کرتا ہوں تو شندور کا ذکر ضرور چھڑ جاتا ہے ۔ غلام قادر صاحب نے شندور کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے بڑے پتے کی باتیں کیں ۔انہوں نے کہا کہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں ، شر پسند عناصر گلگت بلتسان اور چترال کے خاندانی اور خونی رشتوں کو توڑنے کے درپے ہیں ۔ شندور کے حوالے سے گلگت اور چترال کے درمیاں کوئی جھگڑا نہیں ہے ۔اگر یہ زمین متنازعہ ہے تو غذر کے انتہائی بالائی دیہات پھنڈر تا برست اور چترال کے بالائی علاقہ لاسپور کے درمیاں ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سن ساٹھ کی دہائی سے گلگت اور چترال کے مابین پولو ٹورنامنٹ کھیلا جاتا رہا ہے ۔ شندور سے پہلے یہ ٹورنامٹ پھنڈر میں کھیلا جاتا تھا ۔ باتوں باتوں میں موصوف نے پھنڈر میں کھیلا جانے والا آخری ٹورنامنٹ کی ایک تاریخ ساز کہانی سنائی جوکہ سن ۱۹۷۶ ؁ ء میں وزیر اعظم شہزادہ محی الدین ( اُس زمانے میں چترال کے ڈپٹی کمشنر کو وزیر اعظم کہا جاتا تھا) کے زمانے میں پھنڈر جنالی میں کھیلا گیا ۔ اُس زمانے میں چترال کی ٹیم میں ( غلام قادر کے مطابق ) صوبیدار جلال الدین چوئنج ، صوبیدار ایاز زرگراندہ ( ایاز اُس وقت ابھی ابھی سن بلوغت کو پہنچا ہوا ایک نو جواں تھا ) ،صوبیدار دوستی ریشن ، شاجی صوبیدار سنوغر ، بابائے پولومظفر علی جنگ بازار اور چترال کے مشہور پولو پلیر ناصر، زرگراندہ کے والد(مرحوم) شامل تھے۔
زمانہ بتاتا ہے کہ گلگت اور چترال ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ جہاں چترال کا نام آتا ہے وہاں گلگت کا نام بھی لاماً آتا ہے کیوں کہ ہمارے جعرافیائی حالات، ہمارے خاندانی رشتے ، ہماری ثقافت اور بڑی حد تک ہماری زبان بھی ایک ہی ہے۔ ہم ہر کام ساجھا ملا کر کرتے ہیں ،ایک دوسرے کا غم سہتے ہیں اور خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں لیکن جہاں پولوں در آتا ہے وہاں صرف ایک گھنٹے کا کھیل ختم ہونے تک جُنالی( پولو گراؤنڈ) پانی پت کا میدان بن جاتا ہے یہ جنگ صرف بارہ کھلاڑیوں میں لڑی جاتی ہے تماشائیوں میں اکثریت اُن کی ہوتی ہے جوکہ علاقہ پرستی سے زیادہ دونوں طرف کے کھلاڑیوں کی چوگان بازی میں پھرتی، مہارت اور فن شہسواری کو داد دیتے ہیں ۔ جب یہ کھیل پھنڈر میں کھیلا جاتا تھا تو گلگت کے عوام و خواص کی جانب سے مہمان کھلاڑیوں اور تماشائیوں کی خاص خاطر مدارت کی جاتی تھی ۔ اُن تمام مہمانوں کی رہائش کیلئے اعلیٰ انتظامات کے علاوہ گھوڑوں کے لئے اصطبل بھی شاندار طریقے سے تعمیر کیے جاتے تھے۔چترال سے آئے ہوئے تمام کھلاڑی اور تماشائی مہتر گوپس کے شاہی مہمان ہوتے تھے۔ اُس ٹورنامنٹ کے تین واقعات گلگت اور چترال پولو کی تاریخ کا حصہ بن گئے جو آج بھی اُس وقت کے پھنڈر جنالی میں موجود گوپس کے شاہی خاندان، تمام کھلاڑیوں اورتماشائیوں کویادہیں ۔
واقعہ نمبر ۱. گلگت کا شہسوار
جب چترال کی پولو ٹیم پھنڈر پہنچی تو معلوم ہوا کہ گلگت کی ٹیم میں ایک ایسا کھلاڑی بھی موجود ہے جوکہ کسی جرم کی پاداش میں جیل میں تھا لیکن اس ٹورنامنٹ کے لئے اُسے وقتی طور پر رہائی دلا کر لایا گیاہے اور آج تک مخالف ٹیم اُس نوجوان سے بازی جیت نہیں چکی ہے ۔اِس خبر کے پھیلتے ہی چترال کی ٹیم اور تماشائیوں میں کھلبلی مچی کہ آخر ایسا کونسا کھلاڑی ہے کہ جسے جیل سے وقتی رہائی دلا کر لایا گیا ہے ؟ ۔غلام قادر صاحب کے مطابق صبح دس بجے کھیل شروع ہونے سے پہلے گلگت کی ٹیم کے ایک ایسے نوجواں سے ملاقات ہوئی جوکہ متناسب قد کاٹھ کا مالک تھا لیکن ایک کمی تھی جوکہ اُس کے بہترین کھلاڑی ہونے پر مکمل حرف آنے کی مترادف تھی اور وہ یہ کہ اُس نوجوان کے بائیں بازو میں کی ہتھیلی نہیں تھی۔ چترال کے کھلاڑیوں میں کھسر پھسر شروعہوئی کہ جس کھلاڑی سے ہمیں ڈرایا جاتا رہا وہ تو معذورنکلا ۔ جب کھیل شروع ہوا تو اُس نوجوان نے بغیر رُکے چھ گول کئے ۔ ایسا لگتا تھا کہ چترال کی ٹیم کو گیند نظر ہی نہیں آتی تھی۔ گلگت کا یہی ایک کھلاڑی تھا جس میں دم تھا جو کہ ایک ہاتھ سے معذور ہونے کے باوجود مسلسل چھ گول بنائے ۔
واقعہ نمبر ۲۔ ایاز کی پُھرتی
ایاز صاحب ابھی ابھی میدان چوگان بازی میں اُتر آئے تھے ۔ اپنے زمانے کا بلا کا طاقتور ، چابک دست ، تیز طرار اور ہنر مند چوگان باز مانا جاتا ہے گویا فن شہسواری اُن کی سرشت میں شامل تھا۔ گلگت کی طرف سے چھ گول ہونے تک چترال کی ٹیم بے ہوشی کی عالم میں رہی ۔چترال کے کھلاڑیوں کے لئے یہ فیصلہ مشکل تھا کہ اصولی طور پر کونسا کھلاڑی کس پوزیشن کے لئے درست ہے ۔ کھیل کا پہلا دورانیہ جب ختم ہوا تو چترال کے کھلاڑیوں نے آپس میں صلح مشورے کے بعد یہ حکمت عملیطے کی کہ ایاز کو گول کیپر بنایاجائے ۔ ایاز نے جب گول کیپر کی جگہ سنبھالی تو گلگت کی طرف سے کوئی ایک گیند بھی مطلوبہ ہدف پارنہکر سکی لہذا قسمت کی دیوی چترال پر مہربان ہوئی چترال کی ٹیم نے مکمل اطمینان اور تسلی کے ساتھ کھیلنا شروع کیا ۔
واقعہ نمبر۳۔ بابائے پولو مظفر علی کا تھمپوق
ایاز نے کچھ اس انداز سے ہر گیند کو روکنا شروع کیا کہ گلگت کی ٹیم ذہنی اور جسمانی دباؤ کا شکار ہو کر رہ گئی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ دونوں طرف سے گول برابر ہوگئے ۔ گلگت کی ٹیم نے چھ گول اسکور کرنے کے بعد دم توڑ دی تھی ۔ اب کھیل برابر ہونے کے بعد گلگت کو چترال پر اور چترال کو گلگت پر برتری حاصل کرنے کے لئے صرف ایک گول اور صرف ایک منٹ کا وقت تھا ۔ چھٹا اسکور مظفر علی نے بنایا تھا لہذا تھمپوق کی باری بھی اُنہی کی تھی ۔ یہ عجیب صورت حال تھی ۔ ہوتا یوں ہے کہ اگر مخالف ٹیم پر ایک یا دو گولوں کی برتی حاصل ہو اور وقت ایک منٹ رہ جائے تو برتری والی ٹیم کا کھلاڑی تھمپوق لیتے ہوئے گھوڑے کو دوڑاتا نہیں بلکہ کچوے کی چال چلتے ہوئے گیند کو ہوا میں آرام سے اُچھال کر تھمپوق مارتا ہے لیکن یہاں کہانی عجیب تھی یعنی ایک منٹ کے وقت میں ایک گول اسکور کرکے جیت جانا تھا یا مزید وقت لیکر کھیلنا تھا ۔ بابائے پولو مظفر علی نے اپنے فن چوگان بازی اور بابا گری کا لوہا اُس دن منوا۔ بابائے پولو نے تھمپوق کی گیند اُٹھائی اور گھوڑے کی رفتار میں بھیبرق کا کمال آیا پھنڈر جنالی میں موجود چترالی شائق پولو اور کھلاڑی غلام قادر کا کہنا ہے کہ مظفر علی کے گھوڑے کے نعل جنالی کی گھاس کے نیچے کنکروں سے جب ٹکراتے تھے تو گھوڑے کے نعل کے نیچے سے چنگاریوں کی بارش ہوتی تھی ایسا لگتا تھا گویا جنالی سے توپ کے گولے ٹکرا رہے ہوں ۔ مظفر علی نے سیکنڈوں میں گیند ہوا میں اُچھالی اور تھمپوق ہٹ ہو ا۔ جنالی میں موجود تمام تماشائی آسمان کی طرف دیکھتے رہے لیکن گیند ہوا میں اچھل کر اوپر بادلوں کے اوٹ غائب ہو گئی ۔ اسٹیج سے اعلان ہوا کہ دوسری گیند پھینکی جائے ۔ یہ وہ وقت تھا جب گلگت کا وہ مشہور کھلاڑی جسے جیل سے نکال کر لایا گیا تھا اِس وقت گول کے دونوں ستونوں کے درمیاں کھڑا گیند کو رونے کے انتظار میں مستعد کھڑا تھا اِتنے میں مظفرعلی کا تھمپوق اوپر سے سیدھا مخالف کھلاڑی کے بالکل پیچھے گر کر گول کے دونوں ستونوں کے درمیان کھینچی ہوئی لائین کے بالکل وسط سے ٹتگزر ا اور گول کے ساتھ کھڑے منصف نے جھڈی ہلا کر گول ہونے کا اعلان کیا ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔