قربانی کے مسائل(2)

……….مفتی محمد غیاث الدین چترالی………….
عام طور پر بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر زکوٰۃ واجب نہیں لہٰذا قربانی بھی واجب نہیں ہوگی ،یاد رہےایسا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ  قربانی اور زکوٰۃ میں دو اعتبار سے فرق ہے۔ایک یہ کہ زکوٰۃ  صرف سونا،چاندی،نقدی،سامانِ تجارت (جس میں شیئرز وغیرہ بھی داخل ہیں)اور حیوانات میں واجب ہوتی ہے جبکہ قربانی   میں مذکورہ اموال کے علاوہ ضرورت کے زائد اشیاء کی مالیت کا بھی اعتبار ہوتا ہے۔دوسرا یہ کہ زکوٰۃ میں حولانِ حول (یعنی مال پر سال کا گزر جانا)شرط ہے جبکہ قربانی میں ایسا نہیں ہے۔لہٰذا عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی زکوٰۃ کے لئے صاحبِ نصاب نہیں ہوتا لیکن قربانی کے لئے صاحبِ نصاب ہوتا ہے۔
سفر کی وجہ سے قربانی کا وجوب ساقط ہوتا ہے لیکن ذی الحجہ کی بارھوین تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے اگر مسافر مقیم ہوجائے ،یا کوئی مقیم آدمی صاحبِ نصاب ہوجائے،تو اس پر قربانی واجب ہوگی۔
اگر قربانی کے دن گزر گئے ناواقفیت یا غفلت کی وجہ سے قربانی نہ کر سکا تو قربانی کے جانور  کی قیمت فقراء ومساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے،لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانور کی قیمت صدقہ کر دینے سے قربانی کا وجوب ساقط نہیں ہوگا اور وہ آدمی گناہ گار ہوگا،کیونکہ صدقہ الگ عبادت ہے اور قربانی الگ عبادت جیسے نماز او ر روزہ۔اور اگر کسی نے گزشتہ کئی سالوں کی قربانی نہیں کی تھی حالانکہ اس پر قربانی واجب تھی تو اس کو چاہئے کہ ہرایک سال کی قربانی کے عوض ایک حصہ قربانی کی قیمت صدقہ کرے۔قربانی کے ایام میں قربانی  کا جانور ذبح کرنا ضروری ہے،اس کے بدلے رقم صدقہ کرنا،کسی غریب کے  ساتھ مالی تعاون کرنا، یا کوئی اور سوشل کام میں پیسہ لگانے  سے قربانی ادا نہیں ہوگی ،بلکہ قربانی نہ کرنے کا گناہ ہوگا۔البتہ قربانی کے ایام اگر گزر جائیں تو ایک حصہ کی قیمت کے برابر رقم صدقہ کرنالازم ہے۔
جیسا کہ بتلایا گیا تھا کہ قربانی صرف ان جانور وں کی ہوسکتی ہے جن کوقرآن وسنت میں قربانی کے لئے متعین کیا گیا ہے۔اور یہ تین قسم کے ہیں،پہلی قسم اونٹ کی ہے،خواہ نر ہو یا مادہ۔دوسری قسم میں بکرا،بکری،مینڈھا،بھیڑ، دنبہ داخل ہیں خواہ نر ہوں یا مادہ۔ تیسری قسم میں گائے،بھینس داخل ہیں خواہ نرہوں یا مادہ۔
گائے ،بھینس،اونٹ وغیرہ میں سات افراد شریک ہوکر قربانی کرسکتے ہیں جبکہ بکرا،بھیڑاور دنبہ وغیرہ میں صرف ایک حصہ ہے اگر ان میں دو آدمی شریک ہوں تو کسی کی قربانی درست نہیں ہوگی۔
پھرقربانی کے ان جانوروں کی  عمریں بھی متعین ہیں، بکرا  کم از ایک سال کا ہونا چاہیے،گائے کم از کم دو سال کی ہونی چاہیے،اونٹ کم ازکم پانچ سال کا ہونا ضروری ہے۔ان مذکورہ جانوروں کی عمریں اگرمتعینہ عمروں سے کم ہوں توان کی قربانی جائز نہیں ۔البتہ صرف بھیڑ اور دنبہ کے بارے میں یہ آیا ہے کہ اگر اس کی عمر چھ ماہ ہو چھ ماہ سے کم نہ ہو لیکن وہ اتنا موٹا ،تازہ فربہ ہو کہ اگر اس کو  سال بھر کے بھیڑ اور دنبوں میں چھوڑ دیا جائے تو ان سے چھوٹا معلوم نہ ہوتا ہو۔تو ایسے بھیڑ اور دنبے کی قربانی جائز ہے اگرچہ اس کی عمر صرف چھ ماہ ہو۔لیکن چھ ماہ سے کم نہ ہو،اور یہ حکم صرف ان دو جانوروں کے ساتھ خاص ہے۔بکرا وغیرہ اس میں داخل نہیں۔یاد رہیں کہ کسی جانور کی عمر(قمری اعتبار سے) مکمل ہونے میں اگر چند ایام بھی باقی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں ہوگی،اگر چہ وہ کتنا بھی موٹا اور فربہ کیوں نہ ہو سوائے بھیڑاو دنبے کے۔عمر کے پورا ہونے کا یقین یا ظن ِ غالب ہونا ضروری ہے۔عمروں کی جانچ پڑتال کے لئے دانتوں کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کا درجہ ایک علامت سے زیادہ نہیں۔اگر کسی جانور کے بارے میں یقین سے معلوم نہیں کہ اس کی عمر کیا ہے لیکن دانتوں سے ایسا لگتا ہے کہ اس کی عمر پوری ہے تو اس پر عمل کیا جاسکتا ہے لیکن اگر کسی جانور کے بارے میں یقینی طور پر یا ظنِ غالب کے درجے میں معلوم ہو کہ اس کی عمر مکمل نہیں ہوئی ہے لیکن دانتوں سے پتہ چلتا ہو کہ اس کی عمر پوری ہے تو ایسی صورت میں اس کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔
جس طرح کم عمر کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں اسی طرح معیوب جانوروں کی قربانی بھی جائز نہیں ہے۔چنانچہ اس جانور کی قربانی جائز نہیں جو کانا ہویا اندھا ہو،یا اس کی آنکھ کی ایک تہائی روشنی چلی گئی ہو۔البتہ جو جانور ترچھی آنکھوں سے دیکھتا ہو اس کی قربانی جائز ہے۔اسی طرح ایسےباؤلے جانور کی قربانی جائز نہیں  جو باؤلے پن کی وجہ سے کھا پی نہ سکتا ہو۔اگر بھیڑ، بکری اور دنبی کے ایک تھن سے دودھ نہ اترتا ہو،یا کٹا ہوا ہو یا اس طرح زخمی ہو کہ بچہ کو دودھ نہ پلا سکے، اسی طرح گائے ،بھینس اور انٹنی وغیرہ کے دو تھنوں سے دودھ نہ اترتا ہو یا کٹے ہوئے ہوں یا  اس طرح زخمی ہوں کہ بچہ کو دودھ نہ پلا سکے تو  ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں۔اگر کسی جانور کو جلد کی بیماری ہو (مثلاً خارش وغیرہ)اور اس کا اثر گوشت تک پہنچا ہواس کی قربانی جائز نہیں،ورنہ جائز ہے۔جس جانور کے سینگ پیدائشی طور پر نہ ہو ں یا سینگ تھے مگر کچھ ٹوٹ گئے  یا صرف سینگ کے اوپر خول اتر گیا ہوتو اس کی قربانی درست ہے لیکن اگر سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہوں تو اسکی قربانی درست نہیں۔اگر  لنگڑا ہواور وہ تین پاؤن سے چلتا ہو چوتھا پاؤں زمیں پر نہ رکھتا ہو یا رکھتا ہو لیکن اس پر سہارا نہ لیتا ہو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں۔اور اگر چلتے ہوئے اس پاؤں کا سہارا لیتا ہو تو جائز ہے۔جس جانور کے پیدائش ہی سے کان نہیں ،یا کان تو ہیں مگر کسی کا ن کا تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں۔البتہ چھوٹے کان والے جانور کی قربانی جائز ہے اور اسی طرح اس جانور کی قربانی بھی جائز ہے جس کا کان پھٹ گیا ہو۔جس جانور کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے دانت نہ ہوں بلکہ گر گئے ہوں لیکن وہ چارہ کھا سکتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ورنہ نہیں۔جس  جانور کی دم پیدائش ہی سے نہیں،یا دم ہے لیکن ایک تہائی حصہ کٹ گیا ہےتو اس کی قربانی جائز نہیں۔ایک قول کے مطابق آدھی دم تک معاف ہے،یعنی اگر آدھی دم سے زیادہ کٹی ہوتو اس کی قربانی جائز نہیں ۔ورنہ جائز ہے۔اس حکم پر مجبوری میں عمل کیا جاسکتا ہے۔احتیاط اس میں ہے کہ جانور  دم بریدہ  ہی نہ ہو یاپھر ایک تہائی سے زیادہ دم بریدہ نہ ہو۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔